سفیر صدیقی اور اس کی شاعری


سفیر صدیقی اور اس کی شاعری

        )شہرام سرمدی(

 

خوابوں کے مرثیے’ کی قرات کے دوران، سفیر صدیقی کے یہاں موت /خودکشی سے عنفوانی کشش اور  Innocent Infatuation دیکھ کر میرے ذہن میں رشی کپور اور سیمی گریوال کے درمیان اُس لگاؤ کی تصویریں تازہ ہو گئیں جن کو فلم ‘میرا نام جوکر’ میں راج کپور نے پردہءسیمیں پر اتارا تھا۔ جس میں بالغ ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان عمروں میں ایسا ہوجاتا ہے۔ تقریبا ایسا ہی معاملہ سفیر صدیقی کی غزلوں میں درآۓ ذکرِ موت و خودکشی کا ہے۔

 خیر٫ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری معاصر شاعری میں ‘خوابوں کے مرثیے’ اس اعتبار سے کم یاب شعری مجموعوں میں سے ہے کہ  اس کو پڑھ کر کسی دیگر شاعر کا خیال نہیں آتا ہے مزید برآں اس کی تخلیقی توانائی میں ایک ایسا شاعر موجود ہے جو خود سے توقعات وابستہ کرانے میں کامیاب ہے۔ اس مجموعے میں خیال کی سطح پر موضوعات میں تنوع بھی ہے اور اظہار کے لیے زبان کی ثروت بھی۔ یہی سبب ہے کہ ان غزلوں میں ایک باصلاحیت ذہین لڑکا سخن کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان غزلوں سے ایک ایسے باہوش لڑکے کا پیکر بنتا ہے جو دیوانگی اور فرزانگی کے درمیان نامناسب اور فاش لغزشوں سے بچ کر سفر پر گامزنی کی استعداد رکھتا ہے۔ اس کے یہاں تخلیقی چنگاری قابلِ دید بھی ہے اور لائقِ ستائش بھی۔

 سفیر کے یہاں کئی جگہ ایک ‘لڑکا’ اور ‘پگلی’ کا ذکر ملتا ہے اور اس طرح آتا ہے کہ تخلیقی رومانس خودبخود خلق ہوجاتا ہے۔ اس میں جذبے کی تازگی ہوتی ہے اور پڑھتے وقت ذہن فطری طور پر سفیر کو اس کے ہم عمر نوجوانوں سے منسلک کرتا ہے۔ وہ مخاطب کو ‘پگلی’ کہہ کر خطاب کرتا ہے۔ لطف یہ کہ اپنی سادگی میں وہ مخاطب کو جس لفظ سے یاد کرتا ہے اس سے نفسیاتی رُو سے تعلقات میں نزدیکیاں بڑھتی ہیں:

 معبدِ دل میں ترے نام کی تسبیح کا شور

سمجھاجاتا ہے مرے دل کا دھڑکنا پگلی

 

دماغ و دل کی مشاورت کا نتیجہ یہ ہے کہ میں ترا ہوں

سو باہمی اتفاق سے میرا "میں” ترا ہو چکا ہے پگلی

 

درج بالا اشعار میں زبان کا استعمال بھی دیکھنے اور سوچنے سے تعلق رکھتا ہے۔ زبان کے زاویے سے چند اور اشعار دیکھیں:

 جاں نکل جاۓ فقط جسم کے دم پر ناچوں

اپنے گِر پڑنے سے اٹھی ہوئی دَھم سے پر ناچوں

 

اس آگہی نے تو دے دیا ہے عجیب جانکاہ جوش دل کو

وہ دن بھی کیا دن تھے یار جب وَلوَلے کو پڑھتا تھا میں ‘وَلُولے

 دَھم پر ناچوں’ کہنا اور ‘وَلُولے’ جیسے بے معنی لفظ کو شعر میں لانا اور نباہنا غور کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہی نہیں تازہ تراکیب اور ان کو بخوبی برتنا بھی سفیر صدیقی کے شعری نقوش کو ثبت کرتا ہے:

 

کھل کے روؤں کسی دن میں درودیوار کے ساتھ

چشمِ گریہ سے بپا ‘نغمہء نم’ پر ناچوں 

 

دراڑیں ڈال دی ہیں جن پہ سرخ، خشکیوں نے

یہ ٹھیکرے بھی کبھی ‘خوگرِ نمی’ رہے ہیں

 

مرا نصیب ہے اس ‘زخمِ بدمزاج’ کا غم

کریدتا ہے جسے اور بھی علاج کا غم

 

بول اے ‘کشمکشِ شدتِ تنہائیء جاں

رقصِ بسمل کروں یا ‘لطفِ ستم’ پر ناچوں

 سفیر صدیقی کے یہاں ایک اور وصف اس کے ذہن کا بالغ ہونا ہے۔ وہ زندگی، انسانی روابط اور دیگر حقائق کو کچھ ایسے بیان کرتا ہے کہ قاری کے لیے اس کی عمر کا تعین کرنا حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ وہ ایسے تخلیقی جوہر کے ساتھ  ان موضوعات کو شعر میں ڈھالتا ہے کہ کہیں بھی مستعار لینے کی بُو نہیں آتی۔ 

 تو اچانک جو پوچھے حالِ دل

میں بھی جھٹکے سے بول دوں شاید

 

زندگی مجھ سے مانگتی ہے سفیر

روز اک آرزو کی قربانی

 

لوگ محسوس تک نہیں کرتے

اور احساس مار ڈالتا ہے

 

تم کو حیرت ہے بے وفائی پر

حیرت انگیز ہے یہ حیرانی

 

پہلے دل نکلے رابطوں سے سفیر

پھر ذرا رہ کے بات چیت گئی

 

کچھ نہ کچھ سب کو مل ہی جاتا ہے

عشق محروم تو نہیں رکھتا

 

مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر دعوتِ فکر کے لیے صرف ایک مصرع اور ملاحظہ فرمائیں:

 یہ دنیا ایں سے آں تک کا سفر ہے

 نوجوانی اور خصوصا زمانہء طالب علمی دھوپ چھاؤں، امید و یاس اور دل و بیدلی کا یادگار دور بھی ہوتا ہے۔ سفیر کے یہاں اس سفر کی گرد و خاک جابجا نظر آتی ہے ساتھ ہی زندگی کی رمق بھی:

 خواب سے اٹھتے دھوئیں کی دھند میں کھویا ہوا

صبح دم ہنسنے لگا ہے رات کا رویا ہوا

 

کسی کا ساتھ نہیں حل مرے اداسی کا

مجھے کسی کی ضرورت ہے اور کسی کی نہیں

 سفیر صدیقی کے یہاں ذکرِ عشق بھی ہے۔ خوبی یہ ہے کہ اس کا عشق ہماری غزلیہ شاعری کا روایتی عشق نہیں بلکہ ایک لڑکے کا عشق ہے جس میں عاشقانہ پن کے بجاۓ دوستی، اُنسیت اور لگاؤ کی کیفیات نمایاں ہیں:

 کیا کہا! موت ہے علاجِ عشق

چل تو پھر مر کے دیکھتے ہیں بھئ

 

تو ٹھیک ہے، مجھ کو چھوڑ کر جارہے ہو، جاؤ پہ یاد رکھنا

جب اگلی دفعہ ادھر سے گزروگے تم تو زیرِ زمیں ملوں گا

 

مجھ کو جنت سی حسیں لگتی ہیں تیری گلیاں

مجھ کو لے جاتا ہے ہر خوابِ ارم تیری طرف

 جب بھی تیرے خواب بن کے سوئی آنکھ

دل نے تیکھے پانی سے آ دھوئی آنکھ

 معاصر حسیات اور روایت سے اکتساب کا ایسا عمدہ امتزاج اور تقلید پرستی سے فاصلہ بناۓ رکھ کر غزل کہنا اس وقت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اور سفیر صدیقی نے ‘خوابوں کے مرثیے’ میں یہ کام کر دکھایا ہے۔ سفیر کو یہ بات کسی نہ کسی سطح پر معلوم ہے کہ کسی فن پارے یا فن کار کی تقلید نہیں کرنی چاہیے بلکہ فن پارے اور فن کار کے پسِ پشت پوشیدہ طرزِ فکر پر غور کرنا چاہیے۔ کیسے کیسے عمدہ شعر کہے ہیں: ایک نظر دیکھیں:

 کاش تو دیکھ لے، ان نظروں سے اک بار مجھے

ہاۓ جن نظروں سے غم میری طرف دیکھتے ہیں

 

سفیر! نزع کے عالم میں بس یہ غم ہے مجھے

کہ میں ہمیشہ اسے دستیاب رہ نہ سکا

 

خطا ہوئی کہ ذرا دیر سے ڈرے ہم لوگ

وگرنہ وقت پہ ڈرتے تو ڈر نہیں لگتا

 

وہ ظلم کرتا ہے اتنا بپا تلا صاحب

کہ کھل کے رو بھی نہ پاۓ ستم زدہ صاحب

 

یہ کس نے جشن بپا کر رکھا ہے زِنداں میں

یہ کون اپنی سزاؤں سے جھوٹ بولتا ہے

 

مجھے تو اچھا لگا زندگی کا رقص مگر

سنا ہے اس بھی اچھا ہے اک سنا ہوا رقص

 

ہاۓ وہ لوگ کہ پتھر نہیں پہچانتے ہیں

دل کے ہوتے ہوۓ دیوار پہ سر مارتے ہیں

 

فنا سے بولو کہ اب وہ اپنا ہنر دکھاۓ

مجھے جو لمحہ سنوارنا تھا، گزر گیا ہے

 ایک مشورہ، اور اس کے بعد اپنی بات ختم کروں گا۔ سفیر کے یہاں خودکشی کا ذکر ملتا ہے۔ اس ضمن میں مجھے سفیر صدیقی کی تنگ دستی کو سوچ کر مایوسی ہوئی کیونکہ خودکشی کو عملی جامہ پہنانے میں اس کے پاس ‘پنکھا’ اور ‘رسی’ کے سِوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ سیمی گریوال کے Infatuation میں اس کا دھیان کہیں اور بھٹک گیا ہو وگرنہ اس نے خود یہ بات کہی ہے کہ:

 مرے حوالے ہے گم گشتہ روشنی کی تلاش

 علامہ نے جس کے ہونے سے تصویرِ کائنات میں رنگ دیکھے تھے۔ وہیں بعض خود ادعاء نابغے ذکر کردہ وجود کے محض مخصوص اعضاء کو دیکھتے ہیں اور وہاں بھی انہیں صرف چربی دکھائی دیتی ہے۔ البتہ بقول سفیر صدیقی اس کے حوالے گم گشتہ روشنی کی تلاش ہے لھذا اس کو اسے تلاش کرنے پر  توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ موت اور خودکشی سے لگاؤ محسوس ہو پر، سفیر صادق ہدایت کی بوفِ کور پڑھے۔ اس سے شاعری کیا کئی ناول بنا سکتا ہے۔

 آخر میں اتنا عرض کروں گا کہ احباب ‘خوابوں کے مرثیے’ کو پڑھیں۔ اس کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں کسی دیگر شاعر یا اس کی شاعری کا خیال نہیں آۓ گا اور یہ وصف ہمارے یہاں تخلیقی ادب میں کم یاب ہے

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے