اپنی نسبتوں کی تلاش میں سرگرداں: مہندر کمار ثانی


اپنی نسبتوں کی تلاش میں سرگرداں: مہندر کمار ثانی
(شہرام سرمدی)
سن دوہزار کی پہلی دہائی کے آخری برسوں میں، کئی نوجوانوں نے اپنے شعری و ادبی سفر کا آغاز کیا۔ جن میں وِپُل کمار، سُوَپنیل تیواری، ابھیشیک شُکلا، عادل رضا منصوری، وِکاس شرما راز، مہندر کمار ثانی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ وِکاس شرما راز نے ان لوگوں کے مقابلے پہلے سفر شروع کیا۔ اس سفر میں زمانی اعتبار سے بقیہ احباب کم و بیش ساتھ ہی تھے۔ یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔ کافی اسلیے بھی ہے کہ یہاں مماثلت یا موازنہ پیش کرنا مقصد نہیں ہے۔

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ مذکورہ احباب کی پرورش و تربیت، مروجہ اردو ادبی و شعری ماحول میں نہیں ہوئی بلکہ ان لوگوں نے اپنی محبت اور دلچسپی سے اردو سیکھی اور قدرے دیر سے شعر و ادب کا مطالعہ کیا۔ روزوشب محنت اور سنجیدگی کے سبب تھوڑی مدت ہی میں یہ احباب ادبی حلقے میں توجہ کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ جس کا ایک بڑا سبب یقینا دنیا کا عالمی گاؤں میں تبدیل ہونا بھی تھا۔ آج ان میں سے بیشتر تر کے اولین نقشِ قدم شعری مجموعوں کی صورت میں ہمارے درمیان ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کا شعری رویہ اور طرزِ اظہار ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

سُوَپنیل تیواری کے یہاں گاؤں کا شہر میں شامل ہونا اور چاندنی کی جھلمل جھلمل روشنی کا آواگَمَن، ابھیشیک شُکلا کے یہاں شعر بُننے کا رچاؤ اور معنوی شیرینی کی آمیزش، عادل رضا منصوری کے یہاں لفظ کی مرکزیت پر اصرار اور اپنی ہندوستانی تہذیبی وراثت کی طرف لگاؤ ، وِکاس شرما راز کے یہاں مٹی کی مہک اور سَبُک رو ندی کے کنارے پانی کے سَرَلتا سے بہنے کی سُگند کی احساس جیسی صفات نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔

اپنے حلقہ احباب میں مہندر کمار ثانی اپنی ادبی سنجیدگی اور استعداد کی بِنا پر جلد ہی مزید توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس کی غزلیں اپنی مخصوص لفظیات اور نسبتا کھردرے یا نثری لہجے کے سبب دور سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس پر مستزاد، اس کی غزلوں میں ایک ‘بات’ کو بیان کرنے کی قابلِ قدر کوششیں ملتی ہیں۔ ذکر کردہ آخری صفت اس کو مذکورہ حلقہ احباب میں امتیاز عطا کرتی ہے۔

ثانی کی غزلیں پڑھتے ہوۓ شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ شاعری محض اردو شاعری یا شاعری پڑھے ہوۓ ذہن کے ذریعے وجود میں نہیں لائی گئی ہے بلکہ یہ شاعری دیگر علوم کے مطالعے پر مبنی ہے، جن علوم میں ہندوستانی فلسفہ، اخلاقیات اور تہذیب کا مطالعہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ خصوصیت اسے مذکورہ حلقے میں تنہا کھڑا کر دیتی ہے۔ عادل رضا منصوری نے ثانی کو ‘اپنی ہی یاترا کا شاعر’ کہا ہے۔ اس میں ‘ہی’ کا اصرار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ ‘لفظ’ خدا ہے۔ انسان کے لیے کہا گیا کہ ‘بات کرو تاکہ پہچانے جاؤ’۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ثانی اپنے شعری عمل میں ‘بات’ کہتا نظر آتا ہے۔ چونکہ ‘بات’ کہتا ہے لھٰذا بات کہنے کے انداز کا ہونا بھی فطری ہے۔ اسی لیے انفرادیت کے لحاظ سے وہ نسبتا زیادہ استحکام کے ساتھ اپنی زمین پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ زمین پر مضبوط پکڑ کے سبب شخص میں اندر باہر دیکھنے کی اہلیت آجاتی ہے اور ایسے میں تیسری آنکھ کا حرکت میں آنا کوئی تعجب کی بات نہیں:
باہر اندر کے جہانوں سے ملا مجھ کو فراغ
تیسری دنیا کے چکر کاٹتا رہتا ہوں میں

تیسری آنکھ کُھل جاۓ تو پھر سیاہ و سفید کے زمینی جھگڑوں خود بخود ختم ہوجاتے ہیں اور وہ جان لیتا ہے کہ تیرگی کچھ نہیں بلکہ روشنی ہی کا ایک حصہ ہے:

میں دن کو شب سے بھلا کیوں الگ کروں ثانی
یہ تیرگی بھی تو اک روشنی کا حصہ ہے

ثانی نے اپنی غزلوں کو ‘موجود کی نسبت سے’ عنوان کے تحت جمع کیا اور کتابی شکل میں پیش کیا۔ اس مجموعے کی قرات کے دوران موجود کی ‘نسبت’ کے تئیں سردانی ذہن کو باربار سوچنے کے مرحلے میں داخل کرتی دیتی ہے۔اس کے شعروں میں ایک اور چیز اکثر دیکھنے کو ملتی ہے; ‘دھیان’۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ‘دھیان’ ہے اور آسن لگاۓ بیٹھا ہے اور اس طرح اس کا تعلق ہندوستانی عرفان سے راسخ اور قائم ہوجاتاہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

اول اول وہی ثانی ثانی
تو بھی دھوکے میں پڑا جاتا ہے

اک دھیان کے صحرا میں بھٹک جاتا ہوں اکثر
کیا دھیان بھی محدود سے آگے نہیں جاتا

یہ شعر بھی دیکھیں اور تازگی کا لطف لیں:

آ کے چڑیوں نے کیا میرا خرابہ آباد
دیکھتے دیکھتے تنہائی سے محفل ہوا میں

اس مختصر سی تحریر میں طوالت سے پرہیز کرنے کی وجہ سے کئی پہلوؤں کو چھوڑ دیا ہے ۔ اس لیے درخواست کہ احباب پڑھیں اور اپنے اپنے طریقے سے ان کو دریافت کریں۔ آخر میں ایک ضروری بات عرض کرتا چلوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ثانی بھی اتفاق ہوگا کہ ان کو ابھی زبان کے نک سِک درست کرنے پر مزید کام کرنا ہے حالانکہ ثانی کے پاس ایک رچی بسی زبان موجود ہے۔ اس کی توجہ ‘بات’ پر بھی رہے لیکن شعر میں ‘بات’ کہنے کے لیے زبان ایک کارآمد ذریعہ ہے۔ ‘بات’ کہتے وقت شعر کی روانی کو مجروح ہونے سے بچانا بھی لازم ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو ‘بات’ وہ بیان کر رہا ہے اس میں ایک طرح کی خشکی بہرحال ہوتی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر ثانی اپنی زمین میں فلک کی فیصد کا اضافہ کریے تو کیا منظر ہوگا۔

فلک ذرا سا ہے اس میں زمیں زِیادہ ہے
مری غزل میں گماں کم یقیں زیادہ ہے

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ثانی ابھی صوت وصدا کی ریاضت میں مشغول ہے۔ ہدف اتنا ہے کہ اس کے دل پر خامشی منکشف ہو جائے:

تمام صوت و صدا کی ریاضت پیہم
ہے اس لیے کہ یہ دل اپنی خامشی میں آئے

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے