شعیب رضا فاطمی کی دس غزلیں


شعیب رضا فاطمی کی دس غزلیں

غزل

لگا کے گلشن کو آگ میرے کہا چراغاں کرا رہے ہیں

لٹا کے اپنے تمام اثاثے کو جشن ہم بھی منا رہے ہیں

 وہیں کھڑے ہیں جہاں پہ چھوڑا تھا رہبروں نے ہمیں سدھا کر

قدم زمیں میں گڑے ہوئے ہیں نہ آ رہے ہیں نہ جا رہے ہیں

ارے میاں کون کس کا دشمن، وہ سازشی تھے وہ سازشی ہیں

ہنسی مجھے اس پہ آ رہی ہے، ڈرے ہوئے ہیں، ڈرا رہے ہیں

وہ اپنے تیروتبر سنبھالے کھڑے ہوئے ہیں مقابلے میں

ہدف ہیں ہم، جانتے ہوئے بھی ا ڑے ہیں غزلیں سنا رہے ہیں

نہ کوئی حیلہ نہ کچھ حوالہ غرور کے آسماں سے اترو

زمیں کے بیٹے زمین والے تمہیں براری بلا رہے ہیں

—————-

غزل

چوٹ نہیں ہے گھاؤ ہے

حملہ کب ہے داؤ ہے

دریا اپنے زور پہ ہے

ٹوٹی پھوٹی ناؤ ہے

شہر انا سے پوچھو تو

کس کا کتنا بھاؤ ہے

عالم بد اعمال ہوا

جاہل پر پتھراؤ ہے

خون نہیں ہے پانی ہے

سڑکوں پر چھڑکاؤ ہے

تلچھٹ تک پی جاؤنگا

درد جہاں کا، لاؤ، ہے

————–

غزل

خسارے پر خسارہ ہو رہا ہے

یہ دل بھی اب تمہارا ہو رہا ہے

چلو اب سیکھ لو جلدی فلسطین

سیاست کا اشارہ ہو رہا ہے

جسے تم وہم کہتے تھے ہمارا

وہی سب آشکارہ ہو رہا ہے

کشادہ دامنی کا زعم سارا

مسلسل پارہ پارہ ہو رہا ہے

چلو اب دو گھڑی موجوں سے لڑ لیں

نظر اوجھل کنارہ ہو رہا ہے

——————-

غزل

بجا کہ آپ کی گنتی وفا شعار میں ہے

یہ دل کہ آج بھی جو شغل انتظار میں ہے

توقعات کے پرزے اڑا دیۓ میں نے

رگ امید بھی دامن کے تار تار میں ہے

ہوا جو فیض خدا روشنی میں بدلیگی

جو تیرگیئ گنہہ فرد جرم کار میں ہے

نہ جانے کب یہ پرندہ اڑان بھرنے لگا

ابھی تو قید میرے جسم کے حصار میں ہے

سروں سے تاج حکومت اتر چکا لیکن

ہماری قوم مگر آج بھی خمار میں ہے

گراۓ اشک اگر وہ تو آگ لگ جائے

عجب بلا کی تپش چشم آبشار میں ہے

—————-

غزل

بھول چکا ہوں برا ہے کیا اور اچھا کیا

غور سے دیکھو میرا چہرہ بدلا کیا

لکھتے رہتے ہو برگد پیپل نظمیں

یاد ہے تمکو اب تک گاؤں کا رستہ کیا

یہ تو ہے اس دور کی انسانی فطرت

باہر سے کیا ہے اندر سے نکلا کیا

جب ظالم کو ظالم کہنا جرم ہوا

میں اس کو مظلوم نہیں تو کہتا کیا

غربت کے لمبے دن اور چھوٹی راتیں

اس موسم میں تیرا میرا رشتہ کیا

————–

غزل

اجلی دھوپ کہ پیلی دھوپ

یا برسات کی گیلی دھوپ

تم سے اچھی کیا ہوگی

کیسی بھی چمکیلی دھوپ

نیلے امبر کے نیچے

تم آؤ تو نیلی دھوپ

زلف تری کھل جائے تو

شرم سے پیلی پیلی دھوپ

میری بیٹیا ہنس دے تو

لگتی چھیل چھبیلی دھوپ

————

غزل

میں کب کوئی خزانہ چاہتا تھا

مگر ہاں مسکرانا چاہتا تھا

کبھی بھی پھوٹ کر میں یوں نہ رویا

کہ سر رکھنے کو شانہ چاہتا تھا

اسے قیدی بنایا اس خطا نے

پرندہ ایک دانہ چاہتا تھا

کہاں منظور رتھی اس کو جدائی

فقط مجھ کو ستانا چاہتا تھا

مجھے حالات نے مہلت نہیں دی

میں ٹوٹا گھر بنانا چاہتا تھا

وہ بولا ہاں وہ بولا بعد مدت

مجھے بھی اک دوانہ چاہتا تھا

————

غزل

میری تمناؤں کی ندیا جل تھل ہو

کاش تمہارے دل میں بھی وہ کل کل ہو

پھر مل جائیں من سے من کی بات کریں

تو ہو تنہائی ہو تیرا آنچل ہو

میں نے کب چاہا تھا اسے ایسا دیکھوں

بکھرے بال ہوں بھیگا بھیگا کاجل ہو

وہ رت آۓ آشاؤں کے دیپ جلیں

میں دیوانہ ہو جاؤں وہ پاگل ہو

سناٹا ہے اندر باہر جیون میں

چاہے کچھ ٹوٹے لیکن اب ہلچل ہو

————-

غزل

ہم بلا شرط محبت کے ہیں قایل سائیں

ہے وجہہ مجھ پہ کرم کو ہے وہ مائل سائیں

مجھ کو منظور نظر بننا تھا اس کا لیکن

درمیاں اپنے انا بھی رہی حائل سائیں

میں نے رشتوں کی طنابوں کو بہت سخت رکھا

اس لئے ہوتا رہا رشتوں سے گھائل سائیں

میں تو گن گن کے ترا نام بھی لینے سے رہا

میری اس ٹیڑھ کا ہے تو بھی تو قائل سائیں

عاجزی شرط ہے مائل بہ کرم ہونے کو

ہم کسی طور بنے ہی نہیں سائل سائیں

———–

غزل

نہ جانے میرے دل کو کیا ہوا ہے

میں سوتا ہوں مگر وہ جاگتا ہے

تصور پر ہے اس کی حکمرانی

بظاہر اس سے رشتہ کٹ چکا ہے

یکا یک ہوش سے غافل ہوا میں

یقیناً آج ان کا سامنا ہے

وفا کا امتحاں اور وہ بھی میرا

حریفوں نے تمہیں کچھ کہہ دیا ہے

اسےلے جاؤ پھینکو یا سمبھالو

میرا دل اب مرے کس کام کا ہے

اسے ہے انتشار دہر کا غم

مگر وہ جو کہ خود بکھرا ہوا ہے

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے