غزل
وہ ایک نقش کہ ارژنگ کی تلاش میں ہے
وہ اک نوا کہ نے و چنگ کی تلاش میں ہے
سنی ہیں تیری حکایاتِ دلکشی جب سے
چمن تمام ترے رنگ کی تلاش میں ہے
بھٹک رہا ہے مرے سر کا بوجھ اٹھائے ہوئے
مرا جنون کسی سنگ کی تلاش میں ہے
فصیلِ حرف وتخیل میں کیوں ہے لرزہ بپا
وفورِ درد کس آہنگ کی تلاش میں ہے
ڈرا رہی ہے کسے اے بلائے تیغِ نظر
مرا جگر بھی تو اب جنگ کی تلاش میں ہے
حصارِ لفظ سے باہر فقط یہ حسن نہیں
ہمارا عشق بھی فرہنگ کی تلاش میں ہے
ظہورِ ذات کے سب طرز سر ہوئے خالد
پہ شوق اب بھی نئے ڈھنگ کی تلاش میں ہے
==================================================================
غزل
چشم کو سونپی گئی خدمتِ خواب
دل پہ طاری ہے عجب حالتِ خواب
خواب اب کے نہ حقیقت ہو جائے
اب کے ایسی ہے مری شدتِ خواب
میں نے دیکھی ہیں تری بھی آنکھیں
صرف مجھ پر نہ لگا تہمتِ خواب
تجھ کو مژدہ ہو مری آنکھ کہ اب
مجھ میں باقی نہ رہی ہمتِ خواب
خواب مخفی ہی رہے سب سے یہاں
کون کرتا ہے بھلا عزتِ خواب
میری آنکھوں میں گہر ہیں کتنے
مجھ کو حاصل ہے بہت دولتِ خواب
تم کہ جلوت سے گریزاں ہو بہت
اب تو آجاؤ کہ ہے خلوتِ خواب
اس کے پہرے ہیں مری آنکھوں پر
اس کو معلوم ہے کیا قوتِ خواب
کتنا بے خواب کیا ہے تو نے
چھوڑ پیچھا مرا اے آفتِ خواب
بس کلیجہ ہی چبا جاتی ہے
کتنی خونخوار ہے یہ وحشتِ خواب
کائنات اور حیات اے خالد
خواب میں جیسے کوئی ساعتِ خواب
==================================================================
غزل
جو عہدِ نو میں خمیرِ بشر بنایا جائے
سناں کو ہاتھ تو نیزے کو سر بنایا جائے
شبِ حیات کو ایسے سحر بنایا جائے
اک آفتاب سرِ چشمِ تر بنایا جائے
مرے حواس کو یہ کون حکم دیتا ہے
کہ اس کو مرکزِ قلب و نظر بنایا جائے
میں اپنے پیکرِ خاکی سے مطمئن ہی نہیں
مرے خدا مجھے بارِ دگر بنایا جائے
درونِ ذات کسی کا یہ جبر ہے مجھ پر
اسی کو جان ، اسی کو جگر بنایا جائے
سکون وراحتِ جاں اب کہیں نہیں ممکن
تمہارے دل کو ہی اب مستقر بنایا جائے
جوہمنفس بھی ہو،ہمراز بھی ہو،ہمدم بھی
اسی کو کیوں نہ بھلا ہم سفر بنایا جائے
بہت ہی تنگ ہیں یہ لامکاں کے گلیارے
سو دشتِ ذات کو ہی رہگذر بنایا جائے
اگر بنانا ہی لازم ہے کچھ تو اے خالد
خود اپنی خاک کو اب کے گہر بنایا جائے
==================================================================
غزل
سر بہ نیزہ پکارتا ہے عشق
میرے اندر وہ کربلا ہے عشق
کیسی وحشت ہے ، بے قراری ہے
کس قیامت سے ہو گیا ہے عشق
ختم ہوگا نہ ختم کر نے سے
وہ جبلت ہے ، خلقیہ ہے عشق
شوق ہے ، آرزو ہے ، طوفاں ہے
یعنی سرتاپا جامعہ ہے عشق
کتنا مرمر کے جی رہا ہوں میں
کتنا جانکاہ سانحہ ہے عشق
کوہِ آتش فشاں ہوں میں خالد
مجھ میں اب اس طرح بپاہے عشق
==================================================================
غزل
اپنا وجود میں نے اب اس طرح پاک کر لیا
جل کر تمام عشق میں خود کو ہی خاک کر لیا
اسکے لئے تو کھیل تھا،شوخی تھی یا مذاق تھا
میں نے ہی سب معاملہ اندوہناک کر لیا
اب کےجنوں میں سانحہ ایسابھی ہوگیا کہ بس
دامن تو خیر چھوڑئیے ، سینہ ہی چاک کر لیا
اس سےنہ واسطہ رہے،اُسکی خوشی اسی میں تھی
اس کی خوشی کے واسطے خود کو ہلاک کر لیا
خوابوں سےوہ نکل کےاب آنکھوں میں جاگنےلگا
میں نے شدید عشق میں وہ انہماک کر لیا
ایسا تھا دل کا سانحہ، وہ سنگ دل بھی رو پڑا
خالد نے جب ذرا سے غم کا اشتراک کر لیا
==================================================================
غزل
لوگ کہتے ہیں بہت زندہ و پائندہ ہوں
کس کو معلوم ہے یہ سچ کہ ترا کشتہ ہوں
زندگی نام تنفس کا نہیں ہے جاناں
شکوہ بیجاہےکہ بن تیرےبھی میں زندہ ہوں
مار ہی دیتی مجھے تیری یہ فرقت لیکن
کب تری یاد نے چھوڑا ہےکہ میں تنہا ہوں
ہے بجا تیری جدائی میں تو مر جانا تھا
میں مگر ہجر میں بھی وصل سےوابستہ ہوں
مرنے جینے کا سبب خوب ہے معلوم مجھے
سرد مہری ہےکسی کی جو میں اک لاشہ ہوں
بے رخی کا ہے وہ اک سنگ ، فقط سنگ ہے وہ
اور میں اس کے لئے شیشہ ، فقط شیشہ ہوں
وہ کہ ہے میرے لئے آتشِ دل اے خالد
میں مگر اس کے لئے صرف دھویں جیسا ہوں
==================================================================
غزل
ان دنوں شام ایسے آتی ہے
موجِ خوں میں نہا کے جاتی ہے
ایک صحرا مجھے بلاتا ہے
ایک وحشت گلے لگاتی ہے
پہلے ہم دھوپ میں جھلستے تھے
اب تو یہ چھاؤں بھی جلاتی ہے
کتنی معصوم ہے وفا اپنی
بے وفائی ہنسی اڑاتی ہے
غیرکی بات اس سےکیوں پوچھی
اس کی سچائی اب رلاتی ہے
کتنے عشوے ہیں اک محبت کے
کتنے پہلو سے آزماتی ہے
ایک دن اعتبار ٹوٹا تھا
اب تو ہر چیز ٹوٹ جاتی ہے
خواب آنکھوں میں جب بھی آتاہے
ایک تعبیر منہ چڑاتی ہے
تیر کیسا تھا جانے اے خالد
روح زخموں سے چھٹپٹاتی ہے
==================================================================
غزل
سب لوگ شام ہوتے ہی جب اپنے گھر گئے
صحرا کو ہم بھی شہر سے پھر لوٹ کر گئے
اچھے دنوں کی آس میں جانے کدھر گئے
جتنے تھے میرے خواب سہانے بکھر گئے
گہرائی ناپنے میں تھے کچھ لوگ منہمک
کچھ لوگ پانیوں میں بلا خوف اتر گئے
اہلِ جنوں کی جب نہ رہی چاک دامنی
شاہانِ خوش لباس سے رشتے سنور گئے
اے خاکِ ہند بول کہ تو جانتی ہے سب
کچھ تو بتا کہاں مرے لعل و گہر گئے
کہتے ہیں ان سے پہلے یہ گلشن تھا خار زار
وہ کون لوگ تھے جو یہاں سے گذر گئے
جس کے لئے خرد کو تھی سردار کی تلاش
اہلِ جنوں وہ کام سرِ دار کر گئے
خود اپنے احتساب کی فرصت کہاں ملی
کچھ بھی ہوا تو غیروں پہ الزام دھر گئے
لشکر کو جان دے کے ملا بھی تو کیا ملا
فتح وظفر کے تاج تو شاہوں کے سر گئے
میں نے کہا مطالبہ کوئی نہیں مرا
کہنے لگے کہ آپ تو بالکل سدھر گئے
==================================================================
غزل
فسونِ ساز ، طلسمِ شام تمھارے نام
وفور شوق ، خمارِ جام تمھارے نام
زمینِ دل جو ہوئی تمام تمھارے نام
یہ حرف ، لفظ ، نوا ، کلام تمھارے نام
ہیں جتنے رنگ ، تمام رنگ تمھارے ہیں
رہے سدا یہ دھنک نظام تمھارے نام
بہت سے نام ہیں حسن کے مگر اصل میں
ازل سے حسن کے سارے نام تمھارے نام
بلاؤں کی تو بس ابتدا ہیں قیامتیں
بلاؤں کا مگر اختتام تمھارے نام
==================================================================
کوئی تبصرہ نہیں