راغب اختر کی دس غزلیں
غزل
حصول ذات میں رد شکیبائی سے پہلے
انالحق کہہ رہا تھا میں جبیں سائی سے پہلے
سبک رو کون تھا ہم سا بتا اے برج عقرب
گذرگاہ انا پر آبلہ پائی سے پہلے
مجھے معلوم ہونی چاہیے تھی مرضی شب
حریم جاں میں خوابوں کی پذیرائی سے پہلے
خدائے روشنائی جامہ قرطاس میں آ
بساط مشتری پر اپنی پسپائی سے پہلے
سنا ہے قریہ جاں میں بھی شور ہاؤ ہو تھا
فغاں انگیز منظر باف تنہائی سے پہلے
——-
غزل
مشترک خواب ہزیمت کے سبب اپنے ہیں
مقتل جاں میں جو سر بکھرے ہیں سب اپنے ہیں
حسن تردید کے مداح ہیں ہم جانتے ہیں
جن کو ہر بات ہو تسلیم وہ کب اپنے ہیں
زہر دے کر مجھے سقراط بناتے ہیں یہ لوگ
ہے عجب ڈھب کی پذیرائی عجب اپنے ہیں
وحشت جاں، رہ پرخار، غبار خاطر
کیا رہیں ان سے گریزاں یہی سب اپنے ہیں
حرف تکفیر کی مانند تھا اک حرف نفی
خوش گمانی میں تھے تاعمر کہ لب اپنے ہیں
———
غزل
وہ ریگ سرخ وہ رقص شرر نہیں جاتے
سراب زیست سے دیوار و در نہیں جاتے
پلٹ کے جانا ترے در پہ تھا عذاب مگر
ہم اپنی جان سے جاتے اگر نہیں جاتے
یہ کس جنون کا سایہ ہے میرے قدموں پر
بھٹکتے رہتے ہیں راہوں میں گھر نہیں جاتے
ہم اپنی ذات میں ٹوٹے ہوئے بہت ہیں مگر
سنبھال رکھا ہے خود کو بکھر نہیں جاتے
یہ کس نے کہہ دیا فرقت کا ہے ملال بہت
یہ بات ہوتی تو جاں سے گزر نہیں جاتے
یہ ہجرتیں، یہ صدائیں، یہ خواہشیں، یہ شکست
ہم ان کی قید میں رہتے ہیں مر نہیں جاتے
—————
کوئی تبصرہ نہیں