پردیپ ترکش کی دس غزلیں


پردیپ ترکش کی دس غزلیں

غزل

جانے کہاں تھا دھیان ہمارا
طاق پہ ہے ایمان ہمارا

دیکھ تو اپنے ٹوٹے دل کو
اور ارادہ جان ہمارا

کون ہے وہ جو بھول گیا ہے
کس پر تھا احسان ہمارا

ہم مصروف تھے آو بھگت میں
روٹھ گیا مہمان ہمارا

تیری نثری دھوپ کے صدقے
سایہ ہے عنوان ہمارا

——————-

غزل

ہر کوئی اپنی ضرورت سے مجھے دیکھتا ہے
ایک ‘تو’ ہے جو محبت سے مجھے دیکھتا ہے

کسی منظر سے نگاہیں نہیں ہٹتیں میری
کوئی منظر بڑی حیرت سے مجھے دیکھتا ہے

اپنے قاری کو میں حرفوں میں نظر آتا ہوں،
میرا سامع  بھی سماعت سے مجھے دیکھتا ہے

دیکھتا ہوں، میں اسے زہر بجھی نظروں سے
آئینہ اور حقارت سے مجھے دیکھتا ہے

اس سے کہہ دو کہ مجھے یوں نہیں دیکھے ‘ترکش’
کون ہے یہ جو ندامت سے مجھے دیکھتا ہے

——————-

غزل

وقت رہتے نہ کیا خود سے کنارا ہم نے
ایک اک لمحہ پھر اس دکھ میں گزارا ہم نے

غرق ہو جانے سے پہلے کا فسانہ ہے یہ
ڈوبتے دل کو ہر اک بار ابارا ہم نے

کون سی موتیوں کی مالا چرائی ہے کہو
کون سا کھیل بگاڑا ہے تمہارا ہم نے

یہ جو نفرت بھری دنیا ہے اسی دنیا میں
کھول رکھا ہے محبت کا ادارہ ہم نے

انکو درکار تھا آئینہ تو ہم کیا کرتے
اپنے پانی کو ذرا اور نتارا ہم نے

اور تو سب سے لطافت کا وطیرہ رکھا
ایک ‘ترکش’ ہی پہ سب غصہ اتارا ہم نے

——————-

غزل

آپکی آنکھوں سے بھی خون کے دھارے نکلے
آپ بھی میری طرح ذات سے ہارے نکلے

کون نکلا ہے بھری رات میں اپنے گھر سے
کس کی اگوائی کی خاطر یہ ستارے نکلے

کیسے کیسے سفر انجام دیے، ہیں ہم نے
اک مسافت پہ تو پاپوش اتارے نکلے

"پار کرنا تھا کوئی اور ہی دریا تم کو
تم کسی اور ہی دریا کے کنارے نکلے

تم کو سونپی تھی محبت کی علمبرداری
تم کسی اور ہی تحریک کے مارے نکلے”

تم نکلتے ہی نہیں دشت گماں سے باہر
کیسے دنیا کا بھرم دل سے تمہارے نکلے

——————-

غزل

سوچتا ہوں، کوئی وعدہ کر لوں
زندہ رہنے کا ارادہ کر لوں

یوں تو ہم دونوں برابر ہیں مگر
میں جسے چاہوں زیادہ کر لوں

ہو گیا معرکہ دل تو سر
ذہن کو اور کشادہ کر لوں

یہ صدا کاتب اعمال کی ہے
میں کوئی ورق تو سادہ کر لوں

——————-

غزل

مایوس کر رہی تھی ہر اک دلیل ہم کو
ہونا پڑا بالآخر اپنا وکیل ہم کو

اب تو یہ دیکھنا ہے ڈوبےگا کون پہلے
تکتے ہیں جھیل کو ہم تکتی ہے جھیل ہم کو

پھر تو اڑے ہم ایسے ہاتھ اپنے بھی نہ آئے
یعنی کہ چاہیئے تھی تھوڑی سی ڈھیل ہم کو

پھر پھر وحی تماشہ دیکھےگا کوئی کیونکر
اب کے نئی طرح سے کیجو ذلیل ہم کو

رکھتے ہیں پاس اتنا پھر یہ تو لازمی ہے
اک دن یہی اداسی جائیگی لیل ہم کو

——————-

غزل

ہو گئے ہو نگے چار چھہ اشعار
اور کیا تھا ہمارے بس میں یار

کیا ہوا پھر مجھے نہیں معلوم
میں تو رونے لگا تھا زار وقطار

کس کے ہاتھوں ہوا ہوں، میں متروک
کس کے سر پر تھا میرا دار ومدار

گفتگو میں شریک ہو جائیں
سر کریں اسکے لہجے کا کہسار

تیرے گریہ کی عمر لمبی ہو
گرنے والی کہاں تھی یہ دیوار

——————-

غزل

دل میرے در پے اک سوالی ہے
جس کا کاسہ ازل سے خالی ہے

اس ہوا سے میں خوب واقف ہوں،
پھر کہیں آگ لگنے والی ہے

اپنی صحبت کا ہے اثر سارا
لہجہ اپنا جو لاابالی ہے

کون گزرا ہے دل سے ہوتے ہوئے
کس نے یہ رہگزر اجالی ہے

وارے جاؤ مخالفت پہ مگر
ہم خیالی تو ہم خیالی ہے

——————-

غزل

باد بہار چاہیئے باد صبا کے بعد
ذکر بتاں بھی کیجئے ذکر خدا کے بعد

دو ہی طرح کے لوگ تھے شہر عذاب میں
کوئی وبا سے پہلے تھا کوئی وبا کے بعد

کیسا ہے اب نظام نگاہیں اٹھا کے دیکھ
اے انتہا پسند تیری انتہا کے بعد

ہنگامہ وہ ہوا کہ سماعت نے مانگی خیر
برگ سکوت جو گرا برگ نوا کے بعد

کس کا کرم ہوا ہے مجھے کچھ نہیں پتہ
گردن جھکائے بیٹھا تھا میں التجا کے بعد

دریا سے کوئی خوف نہ ساحل کی کوئی فکر
‘ترکش’ عدم کی موج ہے موج فنا کے بعد

——————-

غزل

وہ جس نے روپ نور کا دھارا ہے وہ ہوں، میں
اس کہکشاں میں ایک ہی تارا ہے وہ ہوں، میں

اس بار بھی کسی نے رکھی طاق پر انا
اس بار بھی جو آپ سے ہارا ہے وہ ہوں، میں

میں ہی نہیں ہوں، بزم میں دیکھو ہیں سب یہاں
سب ہیں مگر جو کوئی تمہارا ہے وہ ہوں، میں

کس پر نہیں ہے اسکا کرم یہ نہ پوچھیے
بس ایک آدمی کو بسارا ہے وہ ہوں، میں

مر جانے میں یقیں میرا کل تھا نہ آج ہے
لیکن اب اس نے جسکو پکارا ہے وہ ہوں، میں

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے