مقدمہ: دربابِ انتقادِ ادبیاتِ اردو از سید عابد علی عابد


سید عابد علی عابد

مقدمہ: دربابِ انتقادِ ادبیاتِ اردو

اصطلاح میں ادبی تخلیقات کو پرکھنا اور ان کی قدر و قیمت کو متعین کرنا انتقاد کہلاتا ہے۔ نقاد کا منصب یہی ہے کہ ادبی (یا فنی) کاوشوں پر غور کرنے کے بعد ان کی قدر و قیمت کے متعلق دیانت داری سے صحیح فیصلے صادر کرے۔ ظاہرہے کہ اس قدر و قیمت کی تعیین میں اسلوب، ہیئت، پیکر یا تکنیک کے کوائف کا تجزیہ بھی شامل ہے۔ 1؎
انتقادکے لغوی معانی بھی اس کے اصطلاحی معانی کے موئد ہیں بلکہ سچ پوچھیے تو لغوی معانی پر غور کرنے سے اصطلاحی معانی کے بہت سے پہلو روشن ہوجاتے ہیں صاحب غیاث لکھتے ہیں کہ انتقاد:
’’نقد ستائیدن و کاہ از دانہ جدا کردن از منتخب و لطائف و یکے از اعمال علم معما است۔‘‘
یہاں ’نقدستائیدن‘ سے اور ’اعمال علم معما‘ سے تو بحث کرنی مقصود نہیں البتہ ’کاہ از دانہ جدا کردن‘ کا ٹکڑا بہت معنی خیز ہے۔ یعنی پھٹکنا اور یوں پھٹکنا کہ دانہ بھوسے سے جدا ہوجائے۔ لغوی معانی میں یہ اشارہ بالکل واضح ہے کہ انتقاد کے عمل کی غایت اصلی یہ ہے کہ ادبی تخلیقات کا اس طرح تجزیہ کرے کہ جہاں کہیں کھرے میں کھوٹ ہے وہ صاف نظر آنے لگے، محاسن نمایاں ہوجائیں اور معائب دکھائیں دینے لگیں۔ روشن ہوا کہ انتقاد کی سب سے واضح خصوصیت ایک خاص قسم کا ذہنی اعتدال اور توازن ہے۔ جس طرح بھٹکنے والا مشاق ہو تو بڑی جلدی اپنے کام کی تکمیل کرلیتا ہے، نقاد بھی مشاق ہو اور ذوق سلیم رکھتا ہو تو فوراً کھوٹے کھرے میں تمیز کرلیتا ہے (لیکن ذوق سلیم کے ساتھ توازن کا ہونا ضروری ہے)۔ انگریزی میں انتقاد کے لیے Criticismکا کلمہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کلمے کی داستان بڑی دراز ہے اور اس کا ماخذ عربی لفظ ’غربال‘ ہے جس سے انگریزی کلمہ Garble برآمد ہوا ہے۔ غربال کی اصل لاطینی ہے اور اس لاطینی اصل کا تعلق کلمہ Cret سے ہے۔ Cret کے معنی ہیں پھٹکنا، چھان پھٹک کرنا۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ انگریزی کلمہ Crime (جرم) بھی اسی لاطینی مادہ Cretہی سے برآمد ہوا ہے۔ شپلے نے کلمہ ـGarbleکے ماتحت Criticism یا انتقاد کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے اس سے بھی یہی بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ انتقاد کی غایت یہ ہے کہ ادبی تخلیقات کو چھان پھٹک کر فیصلہ صادر کیا جائے کہ کون سا حصہ جاندار اور باثمر ہے اور کون سا حصہ ناسود مند اور بے کار۔ اس سلسلے میں اصابت رائے اور ذوق سلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی ذوق سلیم کا اظہار جب توازن اور اعتدال کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے تو ادبی تخلیقات کی قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔ 1؎
اردو میں انتقادی اشارات تو بہت کثرت سے ملتے ہیں۔ مختلف اصناف سخن سے متعلق مضامین بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ بعض اصناف ادب پر مستقل کتابیں بھی لکھی ہوئی ہیں، مثلاً ناول، مختصر افسانہ، غزل، نظم، داستان گوئی۔ پروفیسر کلیم الدین احمد نے ’اردو تنقیدپر ایک نظر‘ کے نام سے اردو کی انتقادی کاوشوں کا جائزہ لیا ہے۔ حامداللہ افسر صاحب نے اور غلام محی الدین زور نے انتقاد ادبیات کے کچھ عمومی اصول مدون کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ اردو میں ابھی تک ایسی کتاب موجود نہیں جس میں اردو ادب کی مختلف اصناف کو جانچنے اور پرکھنے کے اصول وضع کیے گئے ہوں اور اس سلسلے میں مشرق اور مغرب کے دونوں انتقادی دبستانوں سے مدد لی گئی ہو۔ کم ازکم راقم السطور کی نظر سے ایسی کوئی کتاب نہیں گزری جس میں مشرق کی مشہور انتقادی اصطلاحات اور علامات و رموز کی توضیح یوں کی جائے کہ مغرب اور مشرق میں جو انتقادی اقدار مشترک ہیں وہ واضح ہوجائیں۔ کوئی ایسی منظم کوشش بھی نہیں کی گئی کہ ہمارے ہاں معانی اور بیان کی جو اصطلاحات رائج ہیں ان کی تطبیق مغربی ادب کی متعلقہ اصطلاحات سے کردی جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ مشرق کے اسلوب انتقاد میں اور مغرب کے انداز میں جو فصل اور جو بُعد معلوم ہوتا ہے وہ بیش تر ناواقفیت پر مبنی ہے۔ تحقیق کرنے سے معلوم ہوگا کہ مشرق اور مغرب میں اقدار کے بہت سے پیمانے مشترک ہیں۔ صرف اصطلاحات کے صحیح معنی متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ معانی کے صحیح تعین کے بعد فوراً واضح ہوجائے گا کہ جس چیز کو ہمارے قدیم نقاد بلاغت کہتے تھے، انگریزی اسلوب انتقاد بھی اس سے آگاہ ہے۔ تشبیہ کی جو غرض و غایت مشرق میں ہے کم و بیش وہی مغرب میں ہے، اختصار کو جو اہمیت مشرق میں حاصل ہے وہی مغرب میں ہے۔ مختصر یہ کہ مشرق اور مغربی انتقادی پیمانوں کا فاصلہ کہیں بہت کم ہوجائے گا اور کہیں دونوں اسالیب انتقاد میں مکمل یگانگت دکھائی دے گی۔
اس کتاب (اصولِ انتقادِ ادبیات) کے مؤلف کا نصب العین یہ ہوگا کہ مشرق اور مغرب کے اسالیب انتقاد کی مشترک اقدار دریافت کرے۔ جہاں اختلافات ہیں ان کی توضیح اور توجیہ کرے اور اردو کی اصناف ادب کی چھان پھٹک کرکے ان کی قدر و قیمت کی تعیین میں جہاں مشرق کے انتقادی دبستانوں سے پورا فائدہ اٹھائے وہاں مغربی اسلوب انتقاد سے بھی کوئی بیگانگی نہ برتے۔ ہاں یہ بات ملحوظ خاطر رکھے کہ اردو ادب کو اس کے نظام نسبتی میں رکھ کر ہی جانچے۔ اس سلسلے میں راقم السطور اس سے پہلے کہہ چکا ہے۔‘‘ 1؎
’’ہم لوگ بہ امتداد زمان اپنے قدیم انتقادی نظریات اور متعلقہ مباحث سے ناآشنا ہوتے چلے جارہے ہیں (الا ماشاء اللہ)۔ اگر اس کے ساتھ یہ ہوتا کہ مغربی اسلوب انتقاد اور پیمانہ ہائے تقدیر ادبیات سے ہم کلیتاً آگاہ ہوتے تو اردو ادب کو پرکھتے وقت اور مطالب و معانی کی عظمت متعین کرتے وقت ہمارے سامنے ایک واضح معیار ہوتا لیکن ہوا یہ کہ بہ استثنائے چند جو لوگ اردو ادبیات کو مورد انتقاد بنانے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں، نہ تو وہ مغرب کے انتقادی نظریات سے پوری آگاہی رکھتے ہیں، نہ مشرق کی انتقادی اقدار پر مطلع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اردو ادبیات کو پرکھنے کا حق نہ تو ان لوگوں کو حاصل ہے جو انگریزی ادبیات پر عبور رکھتے ہیں اور نہ ان لوگوں کو جو فارسی اور عربی کے اسلوب انتقاد سے کاملاً آگاہ ہیں۔ ان کے خیال میں اردو ادب پر انتقاد کرنے کا حق صرف ان لوگوں کو پہنچتا ہے جو اردو اور محض اردو جانتے ہیں۔ یہ لوگ اس بنیادی بات سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں کہ اردو ادب کی تمام روایات کی جڑیں کم و بیش فارسی ادبیات میں پیوست ہیں۔ علوم و فنون کی تمام اصطلاحات کم و بیش عربی سے مستعار لی گئی ہیں۔ جو نقاد عربی اور فارسی سے ناواقف ہوگا وہ تو جلیل القدر شعراء اور ادبا کا مفہوم بھی سمجھنے سے قاصر رہے گا کہ مختلف الفاظ کے صحیح معانی اور متعلقہ دلالتیں اسے معلوم نہ ہوں گی۔ اسی طرح اگر نقاد انگریزی اسلوب انتقاد سے ناواقف ہوگا تو اس کی کاوشیں بہرحال ناقص ہوں گی۔
’’حقیقت یہ ہے کہ کسی زبان کے ادب کو صرف اس نظام نسبتی کی حدود میں رکھ کر جانچا جاسکتا ہے، جو اس ادب کی متعلقہ معاشرت اور ثقافت سے مربوط ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی زبان کو اس نظام سے علیحدہ کرکے کسی غیر قوم یا زبان کے پیمانۂ انتقاد سے ناپیں گے تو جو نتائج ہم مستخرج کریں گے ان میں سے بعض تو بالکل غلط ہوں گے اور بعض ان نیم حقائق (Half Truths) سے مشابہ ہوں گے جو جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
’’یہ درست ہے کہ انتقادی اسالیب، نظریات اور پیمانے اقدار مشترک بھی رکھتے ہیں لیکن یہ قدریں بھی اکثر معاشرتی اور ثقافتی اختلافات اور سیاسی اور تاریخی کوائف سے اثر پذیر ہو کر ایسی صورتیں اختیار کرتی ہیں کہ اشتراک کے وجود کا شعور بھی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو واضح نہیں ہوتا۔ کچھ بنیادی اقدار ایسی ضرور ہیں کہ جو کم و بیش ہر انتقادی نظام میں مسلمات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر صرف مسلمات کو ملحوظ رکھ کر کسی فن پارے کو پرکھا گیا تو انتقاد قطعاً ناقص ہوگا اور اکثر و بیشتر سطحی بھی۔ پھر یہ بھی ہے کہ مسلمات کی تعبیر و تفسیر میں اختلاف ہوگا اور یہی اختلاف ایسی صورت اختیار کرے گا کہ مسلمات کے معانی بدل جائیں گے۔
’’اسی طرح اردو ادب کو محض قدیم مشرقی اسالیب کے مطابق پرکھا گیا تو بہ مرور زماں علمی انکشافات اور فنی اکتشافات سے انسان کی بصیرت میں جو اضافہ ہوا ہے اس سے بالکل کام نہیں لیا جاسکے گا۔ نفسیات کے دائرے میں جو حیرت انگیز معلومات حاصل ہوئی ہیں ان سے مدد لے کر ہم اب پرانے نقادوں اور ادیبو ںکی نسبت اپنی ذات کے کوائف کا گہرا شعور حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ بڑا ظلم ہوگا کہ کسی فن پارے کو پرکھتے وقت ہم ان تمام انکشافات کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں جن کی بدولت ہم فنکار کے محرکات تخلیق، عمل تخلیق اور متعلقہ کوائف کا بہتر تجزیہ کرسکتے ہیں۔ آج کل کے انسان کو (اور ظاہر ہے کہ فنکار بھی انسان ہے) اپنی ذات اور اپنی واردات، کیفیات اور اعمال و عوامل کے متعلق اتنی دور رس معلومات حاصل ہیں کہ ماضی قریب کا انسان بھی ان کا تصور نہیں کرسکتا۔ 1؎
’’مختصر یہ کہ اردو ادب کو پرکھتے وقت نقاد کو لازم ہے کہ وہ مشرقی اسلوب انتقاد کے اس جلیل القدر ذخیرے سے بھی فائدہ اٹھائے جو اس کی میراث ہے اور ان نئے انتقادی نظریات کو بھی نظر میں رکھے جو جدید فنی اور علمی انکشافات سے مربوط ہیں۔
ظاہر ہے کہ انتقاد کا یہ اسلوب ان لوگوں کے بس کا روگ نہیں ہے جو نہ عربی اور فارسی سے واقف ہیں اور نہ انگریزی ادبیات سے آگاہی رکھتے ہیں۔ جب تک انتقاد پر ان لوگوں کی اجارہ داری قائم رہے گی جو عربی اور فارسی کا نام سن کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور انگریزی بصیرت رکھنے والوں کو اس لیے گردن زدنی قرار دیتے ہیں کہ اردو ادب پر انھیں انتقاد کی جرأت ہی کیسے ہوئی، ہمارا انتقاد غیرمتوازن، غیرواضح اور یک رخا رہے گا۔
’’اردو بڑی تیزی سے بین الاقوامی زبان بنتی جارہی ہے۔ مختلف علوم و فنون کی کتابیں بڑی سرعت سے اردو میں منتقل کی جارہی ہیں۔ نئے ادبی نظریات، نئے اسالیب فکر، انتقاد کے نئے پیمانے، یا ابلاغ و اظہار کے نئے طریقے اردو ادبیات کو اس تیزی سے متاثر کررہے ہیں کہ کل کی بات آج پرانی معلوم ہوتی ہے۔ اس کے باوصف اس حقیقت کو فراموش نہ کرنا چاہیے کہ ادب کا ارتقا ایک حرکی عمل ہے۔ ماضی اپنے تمام کوائف کے ساتھ حال میں جذب ہوجاتا ہے اور حال اپنے تمام امکانات کے ساتھ پیہم اور متواتر مستقبل میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے۔ ادبیات کے تاریخی ادوار ہم نے مبتدیوں کی سہولت کے لیے مقدر کرلیے ہیں ورنہ ایک دور دوسرے دور میں یوں ملتا ہے کہ کسی ایک مقام کو مقام اتصال قرار دینا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ماضی کے عوامل ہی حال کی تخلیق کا منطقی سبب ہوتے ہیں اور یہی عوامل، حال سے مل کر مستقبل کا رخ متعین کرتے ہیں۔ اسی لزوم و جبر تاریخی کا شعور نقاد کو حاصل ہو تو اس کی گرفت ادب کی رفتار اور اس کے کوائف کی کلیت پر مضبوط ہوگی ورنہ وہ صرف نام نہاد ادوار اور اجزا کو پہچانے گا اسے ادب کے حرکی کُل کبھی کوئی شعور حاصل نہ ہوگا۔
’’فارسی، عربی، سنسکرت، ہندی اور پنجابی،اردو کا ماضی ہیں۔ اس ماضی کے مطالعے سے مفر نہیں۔ 1؎ اردو ادب کے پرواز خیال کی فضا، رموز و علامات اور تلمیحات و استعارات کا افق، روایات و کنایات کی نوعیت، متردافات کی دلالتو ںکے نازک اور پراسرار اختلافات، علمی اور فنی مصطلحات کی حدود اور وسعت، یہ تمام چیزیں بہت بڑی حد تک اسی ماضی سے وابستہ ہیں۔ یہاں تک کہ جن انتقادی نظریات کو ہم مغرب کی کاوش ذہنی کا حاصل قرار دیتے ہیں۔ ان سے مشابہ نظریات بھی عربی، فارسی اور سنسکرت کے دامن فکر و خیال میں موجود ہیں اور آج کل کے ایرانی اور عربی انشاپرداز پیش تر اپنے قدیم انتقادی نظریات کے مطابق اپنے ادب کوپرکھتے ہیں۔ البتہ نھیں مغرب کے اسلوب انتقاد سے کوئی ضد نہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے اس سے بھی کام لیتے ہیں۔
’’بات یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں انتہا پسند ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ یہ شور تھا کہ اردو میں رکھا کیا ہے۔ ایک علمی مضمون بھی ڈھنگ سے نہیں لکھا جاسکتا۔ آج یہ شور برپا ہے کہ فارسی عربی میں کیا رکھا ہے۔ فصاحت و بلاغت کے مباحث، استعارہ اور تشبیہ کی بات، ان سے بھلا بات بنتی ہے۔
’’اس افراط و تفریط سے بچنا لازم ہے۔فارسی اور عربی کے نکتہ پردازوں نے بھی معانی، بیان اور بدیع کے مباحث کے سلسلے میں ایسے بصیرت افروز انتقادی نکات بیان کیے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ آخر ارسطو کی ’بوطیقا‘ اب تک اپنے موضوع پر نہایت فکر افروز اور بصیرت افروز کتاب سمجھی جاتی ہے۔ کیا فارسی اور عربی کے علوم شعری و ادبی اتنے تہی دامن ہیں کہ انتقاد کے سلسلے میں انھیں دریا برد ہی کردینا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات غلط ہے۔ مثال کے طور پر ان کتابوں میں جو اکثر نصاب میں شامل ہوتی ہیں ’چہار مقالہ‘ اور شمس قیس رازی کی ’المعجم‘ ہی میں اتنے نفیس اور دقیق نکات بیان کیے گئے ہیں کہ باید و شاید (اور ایسی سینکڑوں کتابیں ہیں) لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کتابوں کو ہم سرسری نظر سے پڑھتے ہیں، مفہوم و مطالب پر غور نہیں کرتے۔
’’یہ درست ہے کہ محض اسی قسم کی کتابوں سے مدد لے کر اردو ادب پر انتقاد کرنا غلط ہے لیکن ان سے قطع نظر کرلینا تو غلطی نہیں ذہنی کج روی ہے، اور انتقاد توازن کا دوسرا نام ہے۔‘‘
اردو میں انتقادی اصول کی عدم موجودگی اور انتقادی تحریروں کی افراط و تفریط کو ملحوظ رکھ کر پروفیسر کلیم الدین احمد نے کچھ سال اُدھر اپنے مخصوص انداز میں لکھا تھا ’اردو میں تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ یہ اقلیدس کا خیال نقطہ ہے یا محبوب کی خیال کم:
صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے، کس طرف کو ہے، کدھر ہے

جغرافیۂ وجود سارا
ہر چند کہ ہم نے چھان مارا
کی سیر بھی گرچہ بحر و بر کی
لیکن نہ خبر ملی کمر کی
اس طرح نگاہ جستجو جغرافیۂ اردو کی سیر کرکے واپس آتی ہے لیکن تنقید کے جلوے سے مسرور نہیں ہوتی۔‘‘ 1؎
’’اگر تحسین ہوتی ہے تو جتنے تعریفی کلمات لغت میں مل سکتے ہیں سبھی استعمال ہوتے ہیں۔ اگر مذمت مدِنظر ہے تو جاو بے جا اعتراضات، بسا اوقات فحش گالیوں کے دریا بہا دیے جاتے ہیں اور اسی کو تنقید سمجھا جاتا ہے۔ مصنف کے مقصد کو سمجھنا، اس کے کارنامے کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنا، پھر یہ دیکھنا کہ حصول مدعا میں اسے کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی ہے، ان چیزوں کی طرف ، جو اصل تنقید ہیں، کبھی خیال بھی نہیں جاتا۔ سبحان اللہ ایک طرف تو استغفراللہ دوسری جانب، بس یہی اردو تنقید کی بساط ہے۔‘‘ 2؎
راقم السطور کو پروفیسر صاحب کی اس رائے سے تو اتفاق نہیں کہ اردو تنقیدکی بساط اتنی محدود ہے لیکن اس سے اختلاف کرنا مشکل ہے کہ اردو انتقاد میں توازن اور اعتدال کی کمی ضروری ہے۔
تذکروں کے متعلق پروفیسر کلیم الدین احمد نے البتہ جو کچھ لکھا ہے وہ (بیشتر مشرقی اسلوب انتقاد سے ناواقفیت کی بنا پر) یک رخا معلوم ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو تذکرے انتقادی تالیفات نہیں ہیں لیکن اس میں بھی کسی شبہے کی گنجائش نہیں کہ تذکرہ نویس (اور یہاں اچھے پڑھے لکھے تذکرہ نویس مراد ہیں) بغایت اختصار شاعر کے کلام کے خصائص کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ جن الفاظ و کلمات کو ہم محض رسمی سمجھتے ہیں ان کے اصطلاحی معانی ہیں، ان کی انتقادی دلالتیں ہیں۔ تمام اچھے تذکرہ نویس یہ فرض کرکے چلتے ہیں کہ پڑھنے والے معانی اور بیان کے مباحث سے آگاہ ہیں اس لیے وہ اشاروں میں بات کرتے ہیں اور ایک اصطلاحی کلمہ برت کر بعض اوقات سخن ور کے کلام کی کسی بنیادی خصوصیت کا سراغ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر محض ’معاملہ بندی‘ اور ’وقوع گوئی‘ کی اصطلاحیں اپنے دامن میں پیچ در پیچ افکار و تصورات کا وسیع سلسلہ رکھتی ہیں۔ اسی طرح شیریں کلامی، قادرالکلامی، نمکینی، رنگینی اصطلاحات ہیں اور اگر تذکروں کا بغور مطالعہ کیا جائے اور معانی و بیان کے مباحث ملحوظ رکھے جائیں تو ان اصطلاحات کے معانی روشن ہوجائیں گے اور ثابت ہوجائے گا کہ تذکرہ نگاروں نے جہاں تک ہوسکا ہے دیانت داری سے انتقاد بھی کیا ہے۔
یہ درست ہے کہ بعض تذکروں کا مقصد ہی کسی خاص شاعر یا کسی خاص شعری دبستان کو بدنام کرنا ہے۔ اسی طرح بعض تذکروں کی غایت ہی یہی ہے کہ سخنوروں کے ایک خاص گروہ کی حمایت کرے یا کسی خاص مسلک شعر کی خوبیاں اجاگر کرے، لیکن اس قسم کے تذکروں کا مطالعہ بھی فائدے سے خالی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دشمن کی نظر ایسے عیوب پر پڑتی ہے جو دوست کو اور غیرجانب دار مبصر کو نظرنہیں آتے۔ ہر قسم کے تذکرے کا مطالعہ کرنے سے وہ حقیقت نمایاں ہوجاتی ہے جو افراط اور تفریط کے درمیان نقطۂ اعتدال کے طور پر قائم رہتی ہے۔1 ؎ اسی طرح راقم السطور کی نظر میں تذکرے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، انھیں نظرانداز کرنا بالکل مناسب نہیں۔ آگے چل کر تذکروں کی بعض انتقادی اصطلاحات اور اشارات کی توضیح کی جائے گی۔
انتقاد سے ملتی جلتی جو تحریریں مثلاً تبصرہ، ریویو، تقریظ وغیرہ پائی جاتی ہیں، ان کے متعلق آل احمد سرور نے بڑے پتے کی بات کہی ہے:
’’تنقید کی طرف سے بدگمانی عام طور پر ان لوگوں کو ہوتی ہے جو ادب کو بہت گہری نظر سے دیکھنے کے عادی نہیں ہیں، جو اس میں صرف تفریح یا اقبال کے الفاظ میں کوکنار کی لذت ڈھونڈھتے ہیں۔ اگر وہ سطحی فرق کو نظرانداز کردیں اور غور کریں تو انھیں معلوم ہوجائے گا کہ تخلیقی ادب کی زندگی کے لیے کتنا ضروری ہے کہ وہ تنقیدوں سے مدد لے۔ بعض اوقات بدگمانی اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ تبصروں، دیباچوں، مقدموں اور تعارفوں میں عام طور پر جو تنقید ملتی ہے اس میں تنقید کے علیحدہ علیحدہ رنگ ہیں۔ دراصل ان میں سے ہر ایک کا میدان الگ ہے۔ دیباچہ یا تعارف کتاب یاصاحب کا تعارف کرتاہے، اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے؛ اس کی قدر و قیمت متعین نہیں کرتا، متعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مقدمہ اس سے ذراآگے بڑھ جاتا ہے۔ وہ قدر و قیمت بھی متعین کرتا ہے اور قول فیصل بھی پیش کرتا ہے۔ تبصرہ یا رویو بعض اہم خصوصیات کی طرف اشارہ کرتا ہے مگر عام طور پر مقدموں میں بالغ نظری سے زیادہ شرافت کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر یقینا گمراہ کن ہوتے ہیں۔ محدود تنقید تو خیر محدود قسم کی ہوتی ہے، زیادہ مضر نہیں ہوتی لیکن وہ تنقید جس میں دعویٰ جامعیت کا کیا جائے مگر ہو محدود اور مخصوص، گمراہ کن اور پرفریب ہے۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ داخلی تنقید میں اس قسم کا فیصلہ ناگزیر ہے اور یہ فریب مشرق اور مغرب میں بہت عام ہے۔ اس لیے میں داخلی تنقید کو ناقص تنقید کہتا ہوں، وہ تحسین (Appreciation) کے درجے میں آتی ہے اس کی علیحدہ قدر و قیمت ہے مگر اسے بڑی تنقید کا درجہ نہیں مل سکتا۔ بڑی تنقید تخلیقی ادب سے کسی طرح کمتر نہیں ہوتی بلکہ وہ خود تخلیقی ہوجاتی ہے۔‘‘ 1؎
موجودہ انتقادی تحریروں سے بدگمانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر نقاد اپنی اصطلاحات کے معانی متعین نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں راقم السطور نے انتقاد کے منصب سے بحث کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:
’’مسلم ہے کہ ہر علم کی ایک خاص زبان ہے جو اس کے مخصوص حقائق کی ترجمان ہے۔ ان کے معنی متعین، دلالتیں روشن اور ان کے پہلو بیّن ہونے چاہئیں۔ یہ چیزیں تبادلۂ افکار کا زر رائج الوقت ہیں۔ اس زر کو کھرا ہونا چاہیے۔ اپنی رموز و علامات سے کام لے کر ہر علم و فن کے ماہر دوسروں کی بات سمجھتے ہیں اور اپنا مطلب دوسروں کو سمجھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فن کے ماہر ایک ہی زبان بولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس اعتبار سے موجودہ اردو انتقاد پر ایک نظر ڈالیے تو آوے کا آوا بگڑا نظر آئے گا۔ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے تک انتقاد کا جو دبستان قائم تھا وہ برا تھا یا بھلا اس سے ذرا قطع نظر کرلیجیے تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کی اصطلاحات معین تھیں اور اس کی زبان کے بولنے والے اپنا مفہوم بالکل صحیح طریقے پر ادا کرسکتے تھے۔ معانی، بدیع، بیان اور اس کی شاخیں، فصاحت و بلاغت، محسنات شعر، صنائع و بدائع، کلام، تمام علامات ایک دوسرے سے مربوط تھیں اور ذہن میں ایک تصور واضح پیدا کرتی تھیں لیکن کچھ عرصے سے یہ ہورہا ہے کہ علامات کو معین کیے بغیر ایک زبان بولی جارہی ہے۔ رموز اس میں بھی ہیں لیکن سربستہ۔ اس سرمایۂ انتقاد کے ذخیرے اس قسم کے الفاظ میں پوشیدہ ہیں: قنوطیت، رجائیت، تشکیک، تحلیل نفسی، واردات ذہنی، مسلسل تجربات، عظمت حسن، موسیقی، ترنم، نغمہ، جمالیات، فکر وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ان رموز و علامات کے استعمال کے بغیر چارہ نہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ خود اس زبان کے بولنے والوں کے ذہن میں ان کا صحیح مفہوم موجود نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے؛ ان میں اکثر اصطلاحات انگریزی اصطلاحات کا ترجمہ ہیں۔ اردو ترجمہ کرنے والوں نے اپنی استعداد ذہنی اور اپنے میلانات فکر کے مطابق لفظ کا انتخاب کیا ہے۔ لکھنے والا کچھ مراد لیتا ہے، پڑھنے والا کچھ سمجھتا ہے۔‘‘ 1؎
اصطلاحات کے سلسلے میں معانی کا غیرمتعین، مبہم یا غیرواضح ہونا اسلوب نگارش کے تجزیے کے سلسلے میں تو قیامت ہے۔ جہاں تک معانی کے مباحث کا تعلق ہے، اصطلاحات کے معانی بالکل روشن نہ ہوں تب بھی مفہوم کم و بیش ظاہر ہی جاتا ہے لیکن جب نقاد صفات یا انداز نگارش کا تجزیہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ نہ صرف اسٹائل یا اسلوب و انداز کے معانی کی تعیین کرے بلکہ اس سلسلے میں جن صفات کا ذکر کرتا ہے ان کے معانی اور ان کی دلاتیں بڑی وضاحت سے بیان کرے۔ مثال کے طور پر خیال افروزی یا Suggestion، ترنم یا Melody، نغمہ یا Harmony، تصویریت یا Picturesquencess، تجسیم یا Concreteness، ایسی اصطلاحات ہیں کہ جب تک پڑھنے والے کے ذہن میں ان کا واضح اور روشن تصور نہ ہو، وہ انتقادی کاوشوں سے پورا فائدہ کبھی نہیں اٹھا سکے گا۔ کبھی کبھی (اور یہ بہت تامل کے بعد عرض کرتا ہوں) راقم السطور کو یہ بدگمانی ہوتی ہے کہ ابعض نقاد بھی ان اصطلاحات کے صحیح معانی اور ان کی پوری دلاتوں سے آگاہ نہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ آہنگ، ترنم، نغمہ، موسیقی، نغمگی کم و بیش ایک ہی معانی میں استعمال کیے گئے ہیں یا اگر کوئی فرق نقاد کے ملحوظ خاطر ہے تو وہ نمایاں نہیں ہوپایا۔ اس کے ساتھ ہی ایک مصیبت اور بھی ہے کہ پروفیسر شبلی نے کچھ صفات اسلوب ایسی وضع کی تھیں جو انھیں کم و بیش ہر شاعر میں نظر آتی تھیں، مثلاً جدت ادا یا حسن ادا، ندرت تشبیہ، خوبی، استعارہ، یہ اصطلاحات بھی ہمارے انتقادی سرمائے کا زر رائج الوقت بن گئی ہیں اور جہاں کچھ اور کہنے کو نہیں ہوتا، ان اصطلاحات سے کام لیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ مؤلف یہ توقع نہیں کرتا کہ پڑھنے والے یا اس کتاب (اصولِ انتقادِادبیات) کے نقاد اس کی تمام آرا سے اتفاق کریں، لیکن اسے یہ امید ضرور ہے کہ جہاں انھیں مؤلف سے اختلاف ہوگا وہ اس حسن ظن سے کام لیں گے کہ مؤلف نے دانستہ ناظرین کو گمراہ نہیں کرنا چاہا بلکہ اس سے غلطی ہوئی ہے۔ جب آپ دیکھیں کہ مؤلف نے کسی ایسے انشاپرداز یا شاعر کو صف اول کے ادیبوں میں شمار نہیں کیا۔ جس کی تخلیقات آپ کو محبوب ہیں، یا کسی ایسے ادیب کو سراہا ہے جو آپ کے خیال میں سزاوار تحسین نہیں تو آپ اس بات پر بھی ضرور غور فرما لیں کہ مؤلف کو بھی آپ کی طرح کسی ادیب کو اچھا اور کسی کو برا سمجھنے کا حق حاصل ہے۔ بہ الفاظ دیگر انتقاد کے نتیجے کے طور پر دل آزاری ضرور ہوگی لیکن واضح رہے کہ دل آزاری نہ مقصود ہے نہ مطلوب و مرغوب کہ انتقاد کی ایسی کوئی شریفانہ اور معصوم صورت نہیں جو ذاتی تعصب اور تاثر سے بالکل خالی ہو۔ امریکہ کے ایک مشہور مصنف مینکن نے تو اپنے تنقیدی مقالات کے مجموعے کا نام ہی ’تعصبات‘ رکھا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے؛ اگر آپ بالکل غیر جانب دار، ذاتی تعصبات اور تاثر سے خالی الذہن ہوکر انتقاد کرنے بیٹھیں گے تو آپ کو تصویر کے دونوں رخ اس صفائی اور وضاحت سے نظر آئیں گے کہ کسی رخ کی اہمیت بھی آپ پر واضح نہ ہوسکے گی۔ آپ دو متضاد نقطہ ہاے نظر اس خوبی سے سمجھیں گے کہ کسی نتیجے پر پہنچ کر اپنا کوئی نقطۂ نظر پیش نہ کرسکیں گے۔ اس صو رت میں انتقاد غیر جانب دار ہوگا نہ دل آزار ہوگا لیکن بہرحال بے کار ہوگا۔
m
(اصولِ انتقادِ ادبیات: پروفیسر سید عابد علی، سن اشاعت: 1966، ناشر: مجلسِ ترقیِ ادب2، کلب روڈ، لاہور)

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے