قرأت، تنقید اور کوڈز


فہیم اعظمی

قرأت، تنقید اور کوڈز

ساختیاتی مفکرین کا خیال تھا کہ زبان خصوصاً ادبی زبان اتنی سادہ اور معصوم صفت نہیں ہوتی کہ اس کی ایک ہی جہت ہو اور اُس کا ایک ہی مفہوم ہو۔ ہوسکتا ہے کہ لکھتے وقت مصنف کا ارادہ ایک ہی معنی اور مطلب کو اپنے قارئین تک پہنچانا ہو لیکن جب کوئی ادب پارہ قاری تک پہنچتا ہے اور وہ اُسے تنقیدی نگاہ سے پڑھنا چاہتا ہے تو اُس میں بہت سے ایسے پہلو نظر آتے ہیں جن سے وہ مختلف معنی اخذ کرسکتاہے، خصوصاً اس لیے عمومی طور پر مصنف اور قاری میں کوئی روایتی ابلاغ کا رشتہ نہیں ہوتا بلکہ قاری ایک ایسا ادب پارہ پڑھتا ہے جس میں مصنف بالکل غیر حاضر ہوتاہے۔ مصنف کی اہمیت ہے یا نہیں، وہ الگ مسئلہ ہے اُس میں شاید دونوں باتیں درست ہیں یعنی یہ کہ قاری اور نقاد کے عمل میں یہ اصول نہیں شامل ہونا چاہیے کہ مصنف کا عندیہ کیا تھا اور شاید ایسا ہوتا بھی نہیں کیوں کہ دنیا میں الہامی کتابوں سے لے کر بہت سی کتابیں ایسی ہیں جن کی ایک تفسیر یا تشریح کبھی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ہم اپنے اسلاف کے کلام کو اور اُن کے ادب پاروں کو صدیوں بعد تک بھی نئے نئے معنی دیتے رہتے ہیں۔ یہ اصول کہ ’’قانون سازوں کا مقصد کیا تھا؟‘‘ عدالت کے لیے ایک رہنما اصول ہوسکتا ہے کیوں کہ اُس میں قانون سے خصوصاً لکھے ہوئے قانون سے انحراف کی گنجائش نہیں ہوتی اور قانون ہی مرکز ہوتا ہے، ایک ایسا نظریہ جو ایٹم کی مرکزیت کے مطابق ہمیشہ رہا، لیکن ادب میں اس کی گنجائش نہیں اور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ فن پاروں میں جن میں براک Baroqueآرٹ سے لے کر تجریدی آرٹ تک شامل ہیں اور کسی حد تک ویزول visual آرٹ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے، معنی کی تکثیریت plurality کا نظریہ ہمیشہ رہا چاہے وہ ایک ’آئیڈیل‘ ہی کیوں نہ رہا ہو۔
ادب پارے اور قاری یا نقاد کی قرأت کے رشتے اور معنی کی تکثیریت کے نظریہ کے مطابق رولاں بارتھ نے کچھ کوڈز یا ضابطے وضع کیے ہیں جن کی بنیاد پر ادب پارے کو پڑھا اور پرکھا جاسکتاہے، لیکن یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کوڈز یا ضابطے کوئی بے لچک (rigid) اُصول نہیں ہیں جن کی پیروی لازم ہے بلکہ یہ صرف ایک طرح کی ’’ایجنسی‘‘ کا کام کرتے ہیں جن کے ذریعے کسی فن پارے میں ساخت اور معنی کا تعین ممکن ہوتا ہے۔
رولاں بارتھ نے اپنی کتاب S/Zمیں جو فرانسیسی افسانہ نگار بالزک Balzac کی کہانی سراسین Sarrasineپر تنقید ہے1؎، ان کوڈز کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ٹرنس ہاک کے مطابق ان کوڈز کے ذریعے یہ بتانا مقصود ہے کہ کسی ادب پارے میں نشانات کا نظام کسی طرح متن پر چھایا رہتا ہے۔2؎ S/Zمیں بارتھؔ نے ایسا تجزیاتی انداز اپنایا ہے جو عنوان سے لے کر الفاظ اور جملوں تک تکثیریت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ حقیقت نگاری یا فطرت نگاری کے اسلوب میں لکھے گئے بیانیہ پر بھی بڑی حد تک اس کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ یہی تجزیاتی انداز ساختیاتی اور پس ساختیاتی طریقۂ تنقید کی بنیاد ہے جس میں فن پارے کی قدر متعین کرنے یا مطلق فیصلہ صادر کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔
متن کے دال کا تجزیہ کرنے کے لیے جو درحقیقت پورے متن کا تجزیہ کرنے کے مترادف ہے، رولاں بارتھ نے S/Zمیں پانچ کوڈز کی نشاندہی کی ہے۔
تشریحی کوڈ(Hermencutic Code)
Hermencutics وہ علم یا فن تشریح جو الہامی کتابوں کی تفسیر و تعبیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں لفظوں، جملوں اور لفظوں، جملوں کے مرکبات سے معنی نکالے جاتے ہیں۔ بارتھ نے بالزاک کی کہانی کے عنوان سے سراسین Sarassine ہی سے اپنے تجزیاتی مطالعے کا آغاز کیا:
’’سراسین- اس عنوان کو پڑھ کر ایک سوال اٹھتا ہے۔ سراسین کیا ہے؟ گرامر کے لحاظ سے اسم ہے؟ کیا یہ نام ہے، کوئی چیز ہے؟ کوئی آدمی ہے؟ عورت ہے؟ ان سوالوں کا جواب اُس وقت تک نہیں معلوم ہوگا جب تک کہ ہم کہانی میں مجسمہ ساز سراسین کی سوانح حیات تک نہیں پہنچ جاتے…… سراسین کے لفظ میں ایک معنی اور نکلتے ہیں اس کی نسوانیت جسے فرانسیسی زبان بولنے والے فوراً سمجھ لیں گے کیوں کہ اس کی زبان میں کسی اسم کے آخر میں «E»آنا نسوانی صفت ظاہر کرتا ہے……‘‘1؎
مثال کے طور پر جوگندر پال کی ایک کہانی کا عنوان ’’کھودو بابا کا مقبرہ‘‘ ہے۔ کون کھودو بابا؟ کوئی بزرگ، کفن چور، تخریب کار؟ یہ صفت ہے یا اسم؟ کیا اُن کا مقبرہ بنایاگیا یا ان کا مقبرہ کس مقام پرموجود ہے؟ بابا؟ انھیں بابا کیوں کہا گیا؟ کیا وہ مذہبی پیشوا تھے؟ وہ کیا کھودتے تھے؟ وغیرہ اور کہانی شروع کرنے کے بعد کھودو بابا کے صوفی یا مجذوب ہونے کا پتہ چلتاہے اور ان کا ریشنل رویہ ان کو ایک مجذوب نہیں بلکہ انسانی مساوات اور محبت کا ایک پرچارک بنا کر پیش کرتا ہے۔ جورج آرول کی کہانی «Animal Farm»میں جس کا ترجمہ ناصر حسین جعفری نے ’’جانورستان‘‘ کیا ہے۔ عنوان جانوروں ہی کو ظاہر کرتا ہے جس کی کہانی بیان کی گئی ہے مگر کہانی آگے چل کر اس کے مجازی (Allegorical) تخصص کا پتہ چلتا ہے اور آگے چل کر برین واشڈ (Brain Washed) آدمیوں کو ایسے جانور کے روپ میں پیش کیا جاتاہے جو غیر اشتراکی نظام کے تحت اپنی عقل کی آزادی کا استعمال کرتے ہیں۔ کہانی کا ایک ایسا طریقہ جو ایسپ کی حکایتوں جیسا پُرانا طریقہ ہے مگر جس کے لفظوں اور جملوں کا اطلاق سابق سویٹ نظام پر ہوتا تھا۔
دال کا کوڈ یا بنیادی ڈیزائن کا کوڈ (Code of Semes or Signifiers) اس کوڈ کے ذریعہ اُن الفاظ کی نشاندہی کی جاتی ہے جو دال (Signifier) کا کام انجام دیتے ہیں اور جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ متن کا بنیادی ڈیزائن کیاہے اور اُس کو کس ڈیزائن سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں تجسیم بھی شامل ہوتی ہے، استعارے اور سمبل بھی، کنایہ اور اشارہ بھی۔ مشرف عالم ذوقی کی کہانی ’’ڈرائونا خواب‘‘ میں خود ڈرائونا خواب، یہ سب…؟ قبالی تاندوکر رہے ہیں، سرخی مائل، دھواں… دھواں۔ جوش بھائی، سچ کہنا، تم بدل گئے ہو کیا؟ تھالی، جگ کی تھالی، غرض کہ بہت سے الفاظ اور جملے کہانی کی ساخت کا پتہ دیتے ہیں اور ان کا تجزیہ کرنے سے ان کی وسعت کا اندازہ ہوتاہے۔ اسے ہم کہانی کے موضوعات themes یا موضوعی ساخت (The thematic structure) بھی کہہ سکتے ہیں۔
علامتی کوڈ (The symbolic code)
بارتھؔ کے یہاں اُن معنی میں سمبل مراد نہیں جن معنی میں ہم اسے ایمیج یا تمثال کی سب سے اونچی سطح پر رکھ کر اسے خود مکتفی بنا دیتے ہیں بلکہ وہ تمام حوالے اور تشکیلات اور مرکبات (configuration and groupings) مراد ہے جن کے ذریعے متن اپنے کو واضح کرتاجاتا ہے۔ متن کے ساختیاتی تشکیل اور اس کے معنیاتی نظام تک پہنچتے پہنچتے بہت سے اشارے اور کنائے ایسے ملتے ہیں جن سے باہمی افتراق اور تضاد بھی ظاہر ہوتاہے۔ سالنامہ صریر 1996 میں ڈاکٹر مظفر الدین فاروقی کی کہانی میں کئی مثالیں ایسی ہیں جن پر اس کوڈ کا اطلاق ہوتا ہے۔ عنوان ہی میں اشارہ مل جاتا ہے۔ ماریہ، سیتا، دروپدی محض کردار ہیں مگر ان سے مراد وہ مفروضہ و محاورہ ہے جس میں ایک عورت کے بغیر باپ کے بچہ پیدا ہوتاہے جو ایک ضدیا anti-thesis کے طور پر جانا جاتا ہے اور اُس کا جواز اسطورہ، مذہب اور عقیدہ بن جاتے ہیں۔ سیتا وفاداری اور پَوترتا کی مثال شک کی شکار ہوتی ہے اور پوترتا اور پاکیزگی، شوہر سے وفاداری کا سادا دعویٰ ضدِ دعویٰ کو جنم دیتا ہے اور دروپدی کئی بھائیوں کی بیوی ہوتی ہے۔ غیر معمولی کنایہ جو کہانی کے آخر میں سمبل کو واضح کرتا ہے۔
’’مگر والمیکی! سورت کے سڑکوںپر میرے منہ بولے بھائی نے مجھے سیتا بنا دیا اور اس کے منہ بولے بھائی نے پہلے اسے سیتا بنا دیا اور دوسرے چار بھائیوں نے مل کر اسے پھر دروپدی بنا دیا۔‘‘
سالنامہ صریر ہی میں امرائو طار ق کی کہانی ’’آخری اسٹیشن‘‘ میں اسٹیشن، سڑک، مسافر، گاڑی، پلیٹ فارم، مال گاڑی، بے چھت مال گاڑی اور ابابیل کہانی کی structuringکے عمل میں شریک ہیں۔ چلتے ہوئے انجن کا جدا ہوجانا رفتار اور رکاوٹ کے فرق کو ظاہر کرتاہے۔ جاگنے اور سونے کا عمل، ظاہرہ پُرامن بوگیوں پر ڈاکوئوں کے حملے کا خدشہ،ظاہرہ پناہ گاہ کی جانب سفر کا بے پناہی پر اختتام۔ کہانی کے شروع میں:
’’ریلوے عملے کا کوئی آدمی دور دور تک نظر نہ آتا تھا…… اسٹیشن سے باہر سڑک ویران تھی… درختوں پرکوئی پرندہ نہ تھا۔ فضا میں کوئی ابابیل نہ تھی۔‘‘
اور کہانی کے آخر میں یاسیت، وشواس گھات، حیرت اور بے یقینی کی علامتی تشکیل:
’’صبح سویرے ان سب کی آنکھ کھلی تو مسافروں سے بھری چاروں بند دروازوں اور بے کھڑکی والی بوگیاں اور انجن ان کے بے چھت مال گاڑی کو مسافروں سمیت بے یار و مددگار چھوڑ کر جاچکے تھے… ان بے چھت مال گاڑی کے ڈبوں میں بھرے مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے اور چاروں طرف دور دور تک کوئی چوپایہ حتی کہ کوئی پرندہ تک نظر نہ آتا تھا۔
فضا میں کوئی ابابیل بھی نہ تھی۔‘‘
غور کیا جائے تو سمبالک کوڈ میں اور سگنیفائرز یا دال میں بہت کم فرق نظر آتا ہے۔ سگنیفائرز خود ایسے نشانات یا علامتیں مہیا کرتا ہے جس کے ذریعے ہم مختلف ساختیاتی تشاکیل کو جان سکتے ہیں اور معیناتی نظام تک پہنچ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا درست ہوگا کہ علامتی کوڈ آف سیمس (code of semes) یا دال (signifiers) کا بنیادی ڈیزائن کا کوڈ (supplementary) ہیں جو بیانیہ کی ساخت اور معنی کی تہوں کو کھولنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں۔
Proairesisچیمبرز، آکسفورڈ اور ویبسٹر لغات میں انگریزی لفظ یا غیر انگریزی لفظ کے طور پر راقم الحروف کو نہیں ملا لیکن ٹیرنس ہاک کے مطابق یہ یونانی لفظ ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں۔ ’’کسی فعل یا عمل کے سیاق کو عقلی طور سے متعین کرنے کی صلاحیت۔ ‘‘1؎ اگر غور کیا جائے تو یہ صلاحیت ہمارے دماغ کی صلاحیت اور ہمارے تجربہ پر منحصر ہوتی ہے، ہم یہ سب غیر ارادی طور پر کرتے ہیں لیکن بارتھ نے اسے ایک کوڈ کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ساختیاتی فکر کے مطابق متن کے الفاظ کے فرداً فرداً کوئی معنی نہیں ہوتے۔ معنی اس وقت برآمد ہوتے ہیں جب ان کا رشتہ دوسرے الفاظ اور جملوں سے بنتا ہے اور واردات کی شکل اختیار کرتا ہے پھر ایک واردات دوسری واردات سے رشتوں کے ذریعے منسلک ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ہم ’قتل‘ کہیں گے تو بذاتِ خود اس کے کوئی معنی نہ ہوں گے بلکہ وہ واقعات اور الفاظ ایک سلسلے کا حصہ بن کر معنی پیدا کرے گا۔ ٹیرنس ہاک کے مطابق یہ کوڈ عقلی ہونے کے بجائے تجرباتی زیادہ ہوتا ہے۔2؎ لیکن راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ رشتہ عقلی ہے کیوں کہ اُن لوگوں میں جن میں دہنی نقص ہوتا ہے یا جن کی عقل پوری طرح بلوغ کو نہیں پہنچی ہوتی وہ واردات اور نتیجہ میں یا الفاظ اور نتیجہ میں رشتہ قائم نہیں کرسکتے۔ تجریدی اور سمبالک بیانیہ میں یہ مشکل بہت سے عاقل اور بالغ لوگوں کو بھی پیش آتی ہے۔
ثقافتی یا حوالہ جاتی کوڈ(Cultural or Reference Code)
یوں تو ہم نشانیات (semiotics) کے اصول کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام کوڈ جن کا بیان اوپر کیا گیاہے ثقافتی اورحوالہ جاتی ہوتے ہیں اوربارتھ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے لیکن راقم الحروف کا خیال ہے کہ اس کوڈ کو الگ کرنے میں ہمیں اس ساختیاتی کے اصول کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ ہم متن کی قرأت کے وقت بہت سی ایسی باتوں کو جو ہماری ثقافت کا حصہ ہیں بڑی آسانی سے سمجھ لیتے ہیں چاہے وہ دال کے مدلول کے طور پر ہوں یا علامتوں کے معنی کے طور پر۔ بیانیہ میں بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو اس کلچر کے لوگ جس میں بیانیہ تخلیق ہوا ہے آسانی سے سمجھ لیتے ہیں اس لیے کہ اسے سبھی جانتے ہیں مثلاً اگر کسی کہانی میں یہ واقعہ ملے:
’’اس نے اپنی چادر سے سر کو ڈھانپا، پلّو کو اپنی کمر میں باندھا، مٹی کے گھاگر کو اپنے سر پر رکھا اور خراماں خراماں کنویں کی طرف چلی جہاں اسے کنویں کے پانی سے اورمحبوب کے لمس سے اپنی پیاس بجھانی تھی۔‘‘
عورت کے تمام افعال کو پڑھ کر اور نتیجہ اخذ کرکے قاری جلدی سے گزر جائے گا اگر وہ اس ثقافتی مظہر سے واقف ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے مگر دوسری ثقافت کے لوگوں کو اسے سمجھنے میں دقت ہوگی لہٰذا ثقافتی کوڈ کا استعمال اس ثقافت کے لوگ جس میں بیانیہ تخلیق کیا گیا ہے غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر کرتے ہیں مگر دوسری ثقافت کے لوگ اس کو سمجھنے کے لیے کوشش کرتے ہیں اور متن کو سمجھنے اور اُسے بامعنی بنانے کے لیے یہ کوڈ ضروری ہے۔
مندرجہ بالا کوڈز کے ذریعے ان افعال کو تھیوری کی شکل میں پیش کرکے بارتھ نے ہمیں اس نظام قرأت سے آشنا کیا جو ہم غیر ارادی طور پر اپناتے ہیں۔ ساختیاتی فکر میں کسی متن میں انفرادی نقطۂ نظر یا معنی کی وحدت یا ادراک کے لیے کوئی جگہ نہیں بلکہ ہر جگہ تکثیریت کا تصور کارفرما ہوتا ہے۔ کسی بھی متن کے تجزیاتی مطالعے میں اگر اس اصول کو مد نظر رکھا جائے اور ان کوڈز یا ضابطوں کو دھیان میں رکھا جائے تو ہر قدم پر قاری کے دماغ میں سوالات ابھریں گے کون؟کیوں؟ کیسے؟ پھر؟ اور ان ہی سوالات کے جوابات ہمیں دھیرے دھیرے ان سوالات کی جانب بھی لے جاتے ہیں۔ کیا اس کا یہی مطلب ہے؟ کیا اس دال سے یہ مدلول نہیں بن سکتا؟ کیا اس جملے یا لفظ کو اس اور اس معنی میں استعمال نہیں کیا جاسکتا؟ کیا ’’قتل‘‘ کا سبب یہی تھا؟ کیا واقعی قتل کا ارادہ تھا؟ وغیرہ۔ گویا کسی بھی متن کو اس کے مصنف کے عندیہ سے الگ کرکے دیکھیں تو ہمیں کثیر المعنویت تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مقصدی تحریر (readerly text) بھی ہمیں غیر مقصدی تحریر (writerly text)نظر آنے لگے گی اور یہی وجہ ہے کہ سائنسی، تاریخی، اساطیری اور الہامی تحریروں میں ہمیں وحدت معنی کا نظریہ اکثر ختم ہوتا نظر آئے گا اور اس کی مثالیں تاریخ کی مختلف ورژن، سائنس کی مختلف تھیوری اور الہامی کتابوں کے مختلف تفاسیر میں نظر آتی ہے۔ بارتھؔ کے کوڈز کو ذہن میں رکھنے سے ہمیشہ four coordinates کے ذریعہ space time continuum کی مفروضہ حقیقت کے بجائے سگنیفائرز اور مدلول کی نسبت (relativity)اور معنوی تکثیریت (plurality) نظر آئے گی۔
m
(ماہنامہ ’صریر‘ کراچی، اگست 1996، مدیر:فہیم اعظمی)

 

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے