صابر کی دس غزلیں


صابر کی دس غزلیں

غزل

وعدہ ہے کب کا بارِ خدا سوچنے تو دے
معقول کوئی عذر نیا سوچنے تو دے

پرچی وہ جس پہ لکھا ہوا ہے پتا ترا
رکھ کر کہاں مَیں بھول گیا سوچنے تو دے

وہ ہجر بھی تو گونگی پہیلی سے کم نہ تھا
اب وصل آ پڑا ہے ، ذرا سوچنے تو دے

اے چالباز ایسے نہ اِترا کے مسکرا
چلنے دے چال مجھ کو ذرا سوچنے تو دے

ہوں اختیار سے بھی پرے کچھ تصرفات
اندیشۂ حساب ہٹا ، سوچنے تو دے

جو ہو گیا مَیں اُس پہ ہوں راضی خدا قسم
یہ کیوں ہوا ، یہ کیسے ہوا ، سوچنے تو دے

——————————————————

غزل

رہن کب سے رکھا ہوا ہوں مَیں
پھر بھی بے داغ ، نِت نیا ہوں مَیں

میرے دل پر ہیں دستخط تیرے
مستند کب کا ہو چکا ہوں مَیں

کوئی پوچھے تو کیا بتائوں گا
تجھ سے مِل کر تو لَوٹتا ہوں مَیں

کس کو ہے سمت آشنا ہونا
شش جہت تجھ کو پا رہا ہوں مَیں

وہ مجھے پوچھتا ہے ، تُو کیا ہے؟
مَیں بھی الجھا ہوا ہوں ، کیا ہوں مَیں؟

وہ جو لرزاں تھا تیرے ہونٹوں پر
کیا وہی لفظ اَن کہا ہوں مَیں

تجرِبہ اک ہے آزمودہ تُو
ناگہاں ایک حادثہ ہوں مَیں

دل بھی آوارگی سے اُوب گیا
اور بہانہ بھی ڈھونڈتا ہوں مَیں

مَیں نہیں تھا تو کوئی آیا تھا؟
گھر کی چوکھٹ سے پوچھتا ہوں مَیں

——————————————————

غزل

خوبیوں کو مسخ کر کے عیب جیسا کر دیا
ہم نے یوں عیبوں کی آبادی کو دونا کر دیا

طے تو یہ تھا ہر بدی کی انتہا تک جائیں گے
بے خیالی میں یہ کیسا کام اچھا کر دیا

چھت اُتاری ، در اُکھاڑے ، ڈھا دیں دیواریں تمام
ہم نے قلبِ شہر میں اک دشت زندہ کر دیا

دل دھڑکتا تھا کبھی ، اب پھڑپھڑاتا ہے سدا
کیسی ماری پھونک ظالم نے ، پرندہ کر دیا

اُس نے  کل محفل میں ہم سے مسکرا کر بات کی
وہ ہمارا ہو نہیں سکتا یہ پکّا کر دیا

——————————————————

غزل

تم اک دن میرے جیسے ہو رہو گے جانتا تھا مَیں
مگر ہوں آج تک بھی دیکھ لو جیسے کا تیسا مَیں

کوئی موجِ بلا مجھ کو کنارے پھینک دیتی ہے
شناور! ناپ کر تُو ہی بتا کتنا ہوں گہرا مَیں

خدا کے واسطے مت سینت رکھو یوں نفاق اپنا
برا کہہ دو اگر تم کو نہیں لگتا ہوں اچھا مَیں

مَیں قسطوں میں سہی لیکن تجھے لوٹایا جائوں گا
کسی دن ہو ہی جائوں گا ترا سارے کا سارا مَیں

کوئی تخصیص بیشک ہے نہیں اس کے اشارے میں
غنیمت جان کر مَیں چیخ اُٹھّا ہوں کہ اچھا! مَیں

——————————————————

غزل

پھر اگلی سی تعداد ہو جائے گی
گلی دل کی آباد ہو جائے گی

یہ پنجرہ بھی اب زنگ کھانے لگا
یہ چڑیا بھی آزاد ہو جائے گی

دعا اُس کو پانے کی ہو مختصر
اک اَدھ سطر ہو ، یاد ہو جائے گی

ہَوا کا ہے رُخ اُس کی بستی طرف
مِری خاک برباد ہو جائے گی

شب و روز مَیں برسرِ کار ہوں
تری یاد ایجاد ہو جائے گی

یہی سوچ کر بے ہنر ہم رہے
نظر تیری ، نقّاد ہو جائے گی

——————————————————

غزل

تمھارے عالم سے میرا عالم ذرا الگ ہے
ہو تم بھی غمگیں مگر مِرا غم ذرا الگ ہے

یہاں ہے ہنسنا روا تو رونا ہے نامناسب
سقوطِ شہرِ جنوں کا ماتم ذرا الگ ہے

کھلیں گے شاخوں کے راز اہلِ چمن پر اب کے
گرہ گرہ سے اُلجھتی شبنم ذرا الگ ہے

ترے تصور کی دھوپ اوڑھے کھڑا ہوں چھت پر
مِرے لیے سردیوں کا موسم ذرا الگ ہے

ذرا سا بدلا ہوا ہے طرزِ کلام صابرؔ
وہی پرانے ہیں لفظ ، دم خم ذرا الگ ہے

——————————————————

غزل

ہماری بے چینی اس کی پلکیں بھگو گئی ہے
یہ رات یوں بن رہی ہے جیسے کہ سو گئی ہے

لیے تھے کالی گھٹا نے ہم سے اُدھار آنسو
کسے کہیں اب کہ ساری پونجی ڈبو گئی ہے

ہم اس کی خاطر بچا نہ پائیں گے عمر اپنی
فضول خرچی کی ہم کو عادت سی ہو گئی ہے

وہ ایک ساحل کہ جس پہ تم خود کو ڈھونڈتے ہو
اُسی پر  اک شام میرے حصے کی کھو گئی ہے

مَیں یوں ہی مہرے بڑھا رہا ہوں جھجک جھجک کر
خبر اُسے بھی ہے بازی وہ ہار تو گئی ہے

——————————————————

غزل

مستقر کی خواہش میں منتشر سے رہتے ہیں
بے کنار دریا میں حرف حرف بہتے ہیں

سب الٹ پلٹ دی ہیں صرف و نحو دیرینہ
زخم زخم جیتے ہیں لمحہ لمحہ سہتے ہیں

یار لوگ کہتے ہیں خواب کا مزار اِس کو
از رہِ روایت ہم خوابگاہ کہتے ہیں

روشنی کی کرنیں ہیں یا لہو اندھیرے کا
سرخ رنگ قطرے جو روزنوں سے بہتے ہیں

یہ کیا بد مذاقی ہے گرد جھاڑتے کیوں ہو
اس مکانِ خستہ میں یار ہم بھی رہتے ہیں

——————————————————

غزل

آہستہ بولیے گا ، تماشا کھڑا نہ ہو
بیرونِ خواب کوئی ہمیں سُن رہا نہ ہو

رختِ سفر میں باندھ لیں پُر شور کچھ بھنور
دریا ہے پُرسکون ، سفر بے مزہ نہ ہو

یوں تو وہ ایک عام سا پتھر ہے ِمیل کا
لیکن وہاں سے آگے اگر راستہ نہ ہو؟

ہم کاٹ دیں گے عمر کی زنجیر ایک دن
ہمزاد کربِ دید سے شاید رِہا نہ ہو

ہنس ہنس کر اُس سے باتیں کیے جا رہے ہو تم
صابرؔ وہ دل میں اور ہی کچھ سوچتا نہ ہو

——————————————————

غزل

سینت کر ایمان کچھ دن اور رکھنا ہے ابھی
آجکل بازار میں مندی ہے سستا ہے ابھی

درمیاں جو فاصلہ رکھا ہوا سا ہے ابھی
اک یہی اُس تک پہنچنے کا وسیلہ ہے ابھی

یوں ہی سب مل بیٹھتے ہیں سابقون الاولون
دشت میں جاری ہمارا آنا جانا ہے ابھی

مسکرانا ایک فن ہے اور مَیں نو مشق ہوں
پھر بھی کیا کم ہے ، اُسے بے چین دیکھا ہے ابھی

جا بجا بکھرے پڑے ہیں سارے اعضا خواب کے
زیرِ مژگاں کس نے یہ شبخون مارا ہے ابھی

کیوں نہ گھڑ لیں کچھ مَناقب اور فضائل حبس کے

جب اسی اندھے کنویں میں ہم کو جینا ہے ابھی

——————————————————

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے