الگوردم کی دنیا اور اردو زبان


راغب اختر

اکیسویں صدی اس تیسری دہائی کے وسط میں  انسانی تاریخ ایک ایسے فیصلہ کن موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں تہذیبوں اور زبانوں کی بقا کا معیار وہ نہیں ہے جو  اب سے بیس تیس سال قبل ہوا کرتا تھا۔ یہ دور اب محض کمپیوٹر کی ایجاد یا انٹرنیٹ کی دستیابی پر قانع نہیں ہے  بلکہ یہ الگوردم کی ذہانت اور مشینی ادراک یا مشین کاگنیشن کا دور ہے۔ آج ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں، وہ ایک ہائبرڈ ریئلٹی ہے جہاں طبعی دنیا اور ڈیجیٹل کائنات آپس میں اس طرح پیوست ہیں کہ انہیں علیحدہ کر پانا ناممکن ہے۔ ہمارے سماجی روابط، معاشی لین دین، حصولِ علم کے ذرائع، اور یہاں تک کہ ہماری تسکین دل اور ثقافتی شناخت کا فیصلہ بھی اب سلیکون چپس،  کلاؤڈ سرور اور کمپیوٹر کوڈ کا متقاضی  ہے۔ اس انتہائی مربوط اور بے رحم ڈیجیٹل ماحولیاتی نظام میں کسی زبان کا زندہ رہنا اب صرف اس کے مشاعروں کی رونق، کتابوں کی اشاعت، یا بولنے والوں کی کثیر تعداد پر منحصر نہیں ہے۔ اب بقا کے لیے ضروری ہے کہ کوئی  زبان بائنری کوڈ کے ساتھ ہم آہنگ ہونے، مصنوعی ذہانت کے پیچیدہ سانچوں میں ڈھلنے، اور ڈیٹا پر مبنی معیشت میں اپنی جگہ بنانے کی  صلاحیت رکھتی ہو۔ اردو، جو اپنے دامن میں صدیوں کی مشترکہ تہذیبی میراث، صوفیانہ علم و دانش اور شعری روایات سموئے ہوئے ہے، آج اپنی تاریخ کے سب سے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اب اس کا مسئلہ محض ماضی کا تحفظ نہیں، بلکہ ٹکنالوجی  سے ہم آہنگی کے ساتھ ڈیجیٹل خود مختاری کوثابت کرنا بھی ہے۔

اس صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ہمیں ڈیجیٹل ڈارونزم کے فلسفے کو سمجھنا ہوگا، جس کے مطابق ٹکنالوجی  اور سماج اس رفتار سے بدل رہے ہیں کہ جو ادارے یا زبانیں خود کو مطابقت پذیر نہیں بنائیں گی  وہ فنا ہو جائیں گی۔ آج کا انٹرنیٹ کوئی جامد کتب خانہ نہیں، بلکہ انسانیت کا سب سے بڑا اور فعال عوامی چوپال ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مرئیت کی حکمرانی ہے۔ دوسری جانب  ڈیجیٹل معیشت کا سادہ اور سفاک  اصول یہ ہے کہ جو نظریہ، جو تاریخ، یا جو زبان ڈیٹا کی تخلیق سے قاصر ہے وہ اس نظام کے لیے غیر اہم ہے۔ گوگل کے سرچ انجن، سوشل میڈیا کے الگوردم اور چیٹ جی پی ٹی جیسے بڑے لسانی ماڈل صرف ڈیٹا کی کثافت کی زبان سمجھتے ہیں۔ اگر اردو کا ڈیجیٹل فٹ پرنٹ کمزور رہا، تو یہ ان نظاموں کے لیے غیر مرئی ہو جائے گی جس کا مطلب موت ہے۔

یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ مصنوعی ذہانت خود سے کچھ نہیں جانتی بلکہ یہ وہی سیکھتی ہے جو اسے سکھایا جاتا ہے۔ اگر انٹرنیٹ پر اردو کا معیاری مواد موجود نہیں ہوگا، تو مستقبل کی ٹکنالوجی  اردو بولنے والوں کو پہچاننے سے انکار کر دے گی۔ زمین پر خواہ کتنی ہی بڑی کمیونٹی کیوں نہ ہو، انٹرنیٹ کے لیے اس کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔  اردو رسم الخط میں لکھی گئی ایک چھوٹی سی فیس بک پوسٹ، ایک ٹویٹ، یا کسی ویڈیو پر کیا گیا ایک تبصرہ بھی عالمی ٹکنالوجی  کے لیے ایک سگنل ہے کہ یہ زبان زندہ ہے، متحرک ہے اور وسائل کی حقدار ہے۔ اس کے برعکس، ڈیجیٹل دنیا میں خاموشی یا عدم موجودگی کا مطلب موت ہے۔

یہاں یہ تسلیم کرنا دیانت داری اور انصاف کے مطابق  ہوگا کہ اردو کا ڈیجیٹل سفر میں پیچھے رہ جانا محض اردو والوں کی کاہلی یا سستی نہیں تھی، بلکہ اس کی راہ میں سنگین تکنیکی اور فنی رکاوٹیں بھی حائل تھیں، جنہوں نے اس کی رفتار کو دہائیوں تک سست رکھا۔

ایک محقق کی نظر سے دیکھیں تو یہ مسئلہ کمپیوٹر سائنس کی ابتدائی ساخت اور اردو کے خوبصورت رسم الخط کے درمیان تصادم کا تھا۔ اردو کا محبوب اور رائج رسم الخط نستعلیق ہے، جو اپنی فطرت میں سیڑھی نما  اور عمودی ہے۔ اس میں حروف ایک سیدھی افقی لائن میں نہیں بیٹھتے بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف ڈھلکتے ہوئے، ایک دوسرے میں پیوست ہو کر جڑتے ہیں۔  یہ خطاطی کا حسن تو ہے، لیکن کمپیوٹر کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔

اس کے برعکس، ابتدائی کمپیوٹر اور آپریٹنگ سسٹم مکمل طور پر لاطینی  حروف کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے، جو خط مستقیم پر چلتے ہیں۔ عربی اور فارسی کا بنیادی رسم الخط نسخ بھی چونکہ سپاٹ ہے اور اس میں حروف ایک سیدھی لکیر پر رکھے جاتے ہیں اسی لیے وہ کمپیوٹر کے ابتدائی دور میں ہی ٹکنالوجی  کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئے اور عرب دنیا ڈیجیٹل دور میں پہلے داخل ہو گئی۔ لیکن نستعلیق کی پیچیدہ ہندسی اشکال یعنی لگیچر اور حروف کی عمودی نشست و برخاست یعنی کرننگ کو اسکرین پر لانا ایک جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

دہائیوں تک اردو والوں کو ایک تکلیف دہ انتخاب کرنا پڑا: یا تو وہ تصویر نما سافٹ ویئر ان پیج استعمال کریں جس کا متن انٹرنیٹ پر قابلِ تلاش نہیں تھا، یا پھر وہ سرے سے اردو رسم الخط ہی چھوڑ کر انگریزی میں لکھنا شروع کر دیں۔ اس تکنیکی مجبوری نے اردو بولنے والے حلقوں اور انٹرنیٹ کے درمیان ایک خلیج پیدا کر دیا۔ اگرچہ آج اوپن ٹائپ ٹکنالوجی ، یونی کوڈ  کی پیشرفت، اور جدید فونٹ نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے، لیکن ان ابتدائی مشکلات نے اردو صارفین کے ذہنوں میں ایک دیرپا نفسیاتی گرہ لگا دی ہے کہ شاید کمپیوٹر پر اردو لکھنا مشکل ہے۔

تاریخی جدوجہد اور فنی دشواریوں نے ایک عجیب و غریب صورت حال کو جنم دیا ہے جسے ہم رومن  اردو کہتے ہیں۔ آج بھی صارفین جدید ترین اسمارٹ فون رکھنے کے باوجود یہ سوچ کر رومن اردو لکھتے ہیں  کہ یہ آسان ہے۔ لیکن ایک محقق کے طور پر میں پوری ذمہ داری سے یہ عرض کروں گا کہ رومن اردو پر یہ انحصار اردو کے مستقبل پر خود کش حملہ ہے۔

ڈیٹا سائنس اور نیچرل لینگویج پروسیسنگ  کا اصول ہے کہ مشین زبان کو اس کے رسم الخط اور ہجے سے پہچانتی ہے۔ جب آپ اردو کو انگریزی حروف میں لکھتے ہیں، تو آپ مصنوعی ذہانت کو اردو نہیں سکھا رہے ہوتے ہیں، بلکہ آپ اسے انگریزی حروف کا بے ہنگم استعمال سکھا رہے ہوتے ہیں۔ اس سے اردو کا ڈیٹا بکھر جاتا ہے۔ رومن اردو کا کوئی معیاری ہجہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے کمپیوٹر اسے کسی باقاعدہ زبان کے طور پر پروسیس نہیں کر پاتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اردو انٹرنیٹ پر موجود ہونے کے باوجود تکنیکی طور پر ناخواندہ رہ جاتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل کے سپر کمپیوٹر، ترجمہ کرنے والی مشینیں، اور وائس اسسٹنٹس کے ٹول اردو سمجھیں، تو ہمیں اردو رسم الخط میں ٹائپ کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ رسم الخط محض طرز تحریر نہیں، یہ زبان کی بصری شناخت اور اس کے ڈی این اے کا حصہ ہے۔

اب ذرا اردو کے سرکاری سرپرستوں اور ریاستی اداروں کا حال بھی دیکھ لیجیے۔ ہندوستان میں قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان  اور مختلف ریاستی اکیڈمیاں نیک نیتی اور قانونی مینڈیٹ کے ساتھ قائم کی گئی تھیں۔ ان کے قیام کا مقصد زبان کی آبیاری تھا، لیکن افسوس کہ ان کا طریقہ کار اور ان کی سوچ دونوں بیسویں صدی کی فکر میں مقید ہیں۔

یہ ادارے آج بھی کتابوں کی اشاعت، روایتی مشاعروں، سیمیناروں اور ایوارڈ تقریبات کو ہی زبان کی کل خدمت سمجھتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں ثقافتی اعتبار سے اہم سہی، لیکن اکیسویں صدی کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ جدید دور تحفظ کا نہیں، اشاعت و فروغ  کا ہے۔ ایک جدید لسانی اتھارٹی کو صرف پبلشر نہیں، بلکہ ایک ٹکنالوجی  انکیوبیٹر ہونا چاہیے۔

سرکاری اداروں کو اب اپنی کارکردگی  کا رخ ٹکنالوجی  کی طرف موڑنا چاہیے  اور  ان کی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ بہترین اور مفت او سی آر یعنی آپٹیکل کیریکٹر ریکاگنیشن سسٹم تیار کروائیں جو پرانی کتابوں کی تصاویر کو تحریر میں بدل سکے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فی الحال اردو کا کوئی بھی سو فیصد درست او سی آر  موجود نہیں ہے۔ انھیں گوگل، مائیکروسافٹ اور ایپل جیسی بڑی کمپنیوں کے ساتھ مل کر اردو کی بورڈز اور اسپیچ ٹو ٹیکسٹ انجن کو بہتر بنانا چاہیے۔ انٹرنیٹ پر اردو کے معیاری لغات اور تھیسارس کے پورٹل بنانے چاہئیں۔ ایسا نہ ہونے کی وجہ سے، یہ ادارے محض عجائب گھر بن کر رہ گئے ہیں جہاں زبان کی زیارت تو کی جا سکتی ہے، اسے جدید ضرورت کے آلے کے طور پر برتا نہیں جا سکتا۔

اس سرکاری جمود اور سناٹے کے دوران نجی شعبے، بالخصوص ریختہ فاؤنڈیشن نے یقیناً ایک قابلِ قدر خلا پُر کیا ہے۔ ریختہ نے یہ ثابت کیا ہےکہ اگر پیشکش، یوزر انٹرفیس اور ڈیزائن جدید اور خوبصورت ہو، تو آج کی نئی نسل بھی میر و غالب کو پڑھنے کا شوق رکھتی ہے۔ ریختہ نے اردو ادب کو لائبریریوں کی قدیم  الماریوں سے نکال کرموبائل کے ذریعے نوجوانوں کی جیبوں تک پہنچا دیا  ہے لیکن یہاں بھی ایک علمی اور تہذیبی بحث موجود ہے۔ ریختہ پر دیوناگری اور رومن رسم الخط کا بڑھتا ہوا غلبہ اردو کے اپنے رسم الخط کو کمزور کر رہا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ زبان کی جینٹریفیکیشن ہے، جہاں زبان کو مقبول بنانے کے لیے اس کی اصل شکل مسخ کی جا رہی ہے۔  ان تمام چیزوں کے باوجود ریختہ کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ایک نجی پلیٹ فارم کی اجارہ داری زبان کے مستقبل کے لیے صحت مند علامت نہیں ہوتی ہے۔ ہمیں متنوع ڈیجیٹل کتب خانوں، مسابقتی ایپ اور مختلف پلیٹ فارموں کی ضرورت ہے تاکہ زبان کسی ایک ادارے کے ذوق کی محتاج نہ رہے۔

اردو کے ڈیجیٹل مستقبل کا سب سے خطرناک اور خوفناک پہلو، جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، وہ بچوں کے ڈیجیٹل ادب کا فقدان ہے۔ زبانیں اب اسکولوں یا کتابوں سے نہیں، بلکہ اسکرینوں کے ذریعے سیکھی جاتی ہیں۔ آج کا بچہ ڈیجیٹل شہری ہے۔ اس کی زبان کی تشکیل یوٹیوب، گیموں اور کارٹونوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ اگر آج کے بچے کو اردو میں اعلیٰ معیار کے تھری ڈی کارٹون، انٹریکٹو گیم، اور تعلیمی ایپ نہیں ملیں گے تو وہ لازمی طور پر انگریزی کے پیپا پگ، کوکو میلن یا ہندی کے ڈب کیے ہوئے کارٹون دیکھ کر پروان چڑھے گا۔ اور بدقسمتی سے یہی ہو رہا ہے۔ اردو میں بچوں کا موجودہ مواد یا تو تکنیکی لحاظ سے انتہائی کمزور ہے، یا اتنا خشک اور نصیحت آمیز ہے کہ بچہ اس سے لطف اندوز ہونے کے بجائے بیزار ہو جاتا ہے۔

ہمیں اردو کی ڈزنی فکیشن کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے کردار اور ایسی کہانیاں تخلیق کرنی ہوں گی جو جدید اینیمیشن کے معیار پر پوری اتریں، تاکہ اگلی نسل کے لیے اردو ایک بوجھل تعلیمی ضرورت نہ ہو، بلکہ ان کے تخیل اور تفریح کی زبان بنے۔ اگر بچہ تفریح کے لیے انگریزی اور مذہب کے لیے اردو استعمال کرے گا، تو اس کے ذہن میں اردو کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی۔

اردو کے اشرافیہ، دانشوروں اور پڑھے لکھے طبقے کے رویے پر بات کی جانی بھی ضروری ہے۔ اردو سے محبت کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں، مشاعروں میں واہ واہ بھی کی جاتی ہے، لیکن عملی طور پر ہمارا معاشرتی رویہ ایک لسانی تضاد کا شکار ہے۔ ہمارے ادیب، صحافی اور اردو کے اساتذہ بھی اپنے موبائل فون کا انٹرفیس انگریزی میں رکھتے ہیں۔ ہمیں گوگل پر کچھ تلاش کرنا ہو تو انگریزی میں ٹائپ کرتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا پر اردو کی حمایت میں پوسٹیں بھی انگریزی یا رومن اردو میں لگاتے ہیں۔ یہ ایک نوآبادیاتی خمار ہے کہ ہم لاشعوری طور پر ٹکنالوجی ، جدیدیت اور اہلیت کو انگریزی کے ساتھ منسوب کرتے ہیں، اور اردو کو صرف شعر و شاعری، مذہب، جذبات اور ماضی کے لیے مخصوص کر دیتے ہیں۔

یاد رکھیے کہ سلیکون ویلی کی ٹکنالوجی  کمپنیاں جذبات نہیں، مارکٹ دیکھتی ہیں۔ جب تک ہم اپنے فون کی سیٹنگ اردو میں نہیں کریں گے، جب تک ہم اردو کی بورڈ استعمال نہیں کریں گے، جب تک ہم اردو میں مواد تلاش نہیں کریں گے، الگوردم ہمیں ایک مارکیٹ کے طور پر سنجیدگی سے نہیں لے گا۔

قصہ مختصر یہ کہ اردو ہمیشہ متنوع اور معاشرے کی ضرورت کے مطابق ڈھلنے والی زبان رہی ہے۔ یہ لشکری زبان تھی جو بازاروں سے ہوتی ہوئی شاہی درباروں تک پہنچی، اور پھر ٹائپ رائٹر، ریڈیو اور فلموں کا حصہ بنی۔ آج یہ مصنوعی ذہانت کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ نہ اب خطاط کی ضرورت ہے اور نہ ہی پریس کی۔ بس استعمال کرنے والے کی نیت اور عمل مطلوب ہے۔

اردو کے ڈیجیٹل مستقبل کا فیصلہ حکومتیں یا ادارے نہیں کریں گے، یہ فیصلہ روزمرہ میں ہمارا ڈیجیٹل رویہ کرے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اردو محض ماضی کا خوبصورت نوحہ نہ بنے بلکہ مستقبل کی توانا آواز ہو، تو ہمیں اسے اپنی اسکرینوں کے پکسلز پر اتنی ہی جگہ دینی ہوگی جتنی ہم اسے اپنے دلوں میں دیتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا ایک مکالمہ ہے، اور وقت آ گیا ہے کہ اردو اپنی آواز، اپنے رسم الخط اور اپنی شناخت کے ساتھ اس مکالمے میں پوری قوت سے شریک ہو۔

 

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے