سراج اجملی کی دس غزلیں


غزل

سامنا اس سے    نہیں کرتے ہو

اور اسے دل میں مکیں کرتے ہو

سوچ کر اس کے تعلق سے  کبھی

فکر کو   عرش نشیں      کرتے ہو

آسماں  ہے  تو بنا    رہنے      دو

کا ہے تم اس کو  زمیں  کرتے  ہو

بار  بار اس کی گلی  میں جاکر

دشمنی  دل    و    دیں کرتے ہو

لوگ    اقرار   سمجھ    لیتےہیں

کس طریقے سے  نہیں  کرتے ہو

اپنی طلعت  کو  نہیں  دیکھتے  تم

خواہش   ماہ جبیں     کرتے ہو

————————————————————————-

غزل

سمندروں میں سراب اور خشکیوں میں گرداب دیکھتا ہے

وہ جاگتے اور راہ چلتے عجب عجب خواب دیکھتا ہے

کبھی تو رشتوں کو خون کے بھی فریب و وہم و گمان سمجھے

کبھی وہ نرغے کو دشمنوں کے ہجوم احباب دکھتا ہے

شناوری راس آۓ ایسی سمندروں میں ہی گھر بنالے

کبھی تلاش گہر میں اپنے تئیں وہ غرقاب دیکھتا ہے

کبھی تقدس طواف کا سا کرے ہے طاری وہ جسم و جاں پر

سروں پہ گرتا ہوا کبھی لعنتوں کا میزاب دیکھتا ہے

————————————————————————-

غزل

ویراں بہت ہے خواب محل  جاگتے رہو

ہمسائے میں کھڑی ہے اجل   جاگتے رہو

یہ لمحۂ امید بھی ہے وقت خوف بھی

حاصل نہ ہو گا اس کا بدل  جاگتے رہو

جس پر نثار  نرگس شہلا  کی تمکنت

وہ آنکھ اس گھڑی ہے  سجل  جاگتے رہو

جس رات میں نہ وصل نہ امکان وصل ہو

اس رات میں کہاں کی غزل  جاگتے رہو

تقویم روزگار میں کیوں دخل دو سراج

کیا کر سکو گے  ردوبدل      جاگتے رہو

————————————————————————-

غزل

جس سے ملنے کی خواہش زمانے کو ہے

آج کی رات وہ یاد آنے کو ہے

سب نے تسلیم کرلی خدائی تری

اعتراض اب تو بس اک دوانے کو ہے

دل میں اسکو بسانا مناسب نہیں

یہ عمارت تو کل ڈھائی جانے کو تھے

منتظر اہل جنت خدا منتظر

آؤ دیکھیں ذرا کون آنے کو ہے

کون زنجیر بستہ ہوا تھا یہاں

جس کا غم آج تک قید خانے کو ہے

دوستو روشنی کے لئے کچھ کرو

وہ چراغ تعلق بجھانے کو ہے

————————————————————————-

غزل

آ اسے بے حجاب دیکھا جائے

آئنے کا جواب دیکھا جائے

بت خدا کس طرح سے بنتا ہے

ڈال کر اک نقاب دیکھا جائے

آنکھ اس پر مصر ہے جانے کیوں

کچھ پس آفتاب دیکھا جائے

غلغلہ آمد سحر کا ہے

مے کدے کا حساب دیکھا جائے

————————————————————————-

غزل

سب معطل ہیں زیارات ملاقات ہے بند

نالہ کش حضرت انساں ہیں مدارات ہے بند

ایک نادیدہ کھلے دشمن جانی کے سبب

شہر خوباں کی روش زینت آنات ہے بند

ماسوائے در مے خانه و دارو خانه

ہر در مرکز الطاف و عنایات ہے بند

خود کشی اور تصادم کی بھی خبریں معدوم

جاں کے اتلاف کی یہ عام مراعات ہے بند

وہ دریچہ ہو جہاں رویتِ مہتاب سراج

مدتیں ہو گئیں کھلتا نہیں دن رات ہے بند

————————————————————————-

غزل

روشنی چشم خریدار میں آتی ہی نہیں

کچھ کمی رونق بازار میں آتی ہی نہیں

اس سے کچھ ایسا تعلق ہے کہ شدت جس کی

کسی پیرایہ اظہار میں آتی ہی نہیں

جو نہیں ہوتا بہت ہوتی ہے شہرت اس کی

جو گزرتی ہے وہ اشعار میں آتی ہی نہیں

سخت حیراں ہوں صلاحیت خیبر شکنی

وارث حیدر کرار میں آتی ہی نہیں

تم نے دیکھی ہے عجب کیفیت چشم سراج

بات وہ نرگس بیمار میں آتی ہی نہیں

غزل

کیا داستاں تھی پہلے بیاں ہی نہیں ہوئی

پھر یوں ہوا کہ صبح اذاں ہی نہیں ہوئی

دنیا که داشتہ سے زیادہ نہ تھی مجھے

یوں ساری عمر فکر زیاں ہی نہیں ہوئی

گل ہائے لطف کا اسے انبار کرنا تھا

کم بخت آرزو کہ جواں ہی نہیں ہوئی

تا صبح میری لاش رہی بے کفن تو کیا

بانوئے شام نوحہ کناں ہی نہیں ہوئی

————————————————————————-

غزل

کیا سوچتے رہتے ہو تصویربنا کر کے

کیوں اس سے نہیں کہتے کچھ ہونٹ ہلا کر کے

گھراس نے بنایا تھا اک صبر و رضا کر کے

مٹی میں ملا ڈالااحسان جتا کر کے

جو جان سے پیارے تھے نام ان نے ہی پوچھا ہے

حیران ہوا میں تو اس شہر میں آ کر کے

تهذیب مصلی سے واقف ہی نہ تھا کچھ بھی

اور بیٹھ گیا دیکھو سجا دے پہ آ کر کے

مدت سے پتہ اس کا معلوم نہیں کچھ بھی

مشهور بہت تھا جو آشفتہ نوا کر کے

غزل

سنسناتے جسم میں اتارے گا کہ خوش ہے وہ

زخم دے کر مندمل کرنے کی کبھی صورت نکالے گا کہ خوش ہے وہ

بے بہا دولت میسر آئی اسکو کل تمہارے روٹھ جائے سے

خون پانی شیر وہسکی ہو نہ ہو کچھ تو بہائے گا کہ خوش ہے وہ

تمتما تا چہرہ ہاتھوں میں لئے سوچا کرے گا دیر تک کیا کیا

پھر وضو کر کے حضور قلب سے سجدے میں جائے گا کہ خوش ہے وہ

ڈوبتا سورج ابھرتا قد رعنا بات کرتے جسم بے پروا

اپنی آنکھوں میں بسائے شہر کی سڑکوں پر گھومے گا کہ خوش ہے وہ

سوچ کر اس مسکراہٹ کے تعلق سے کہ جس نے زندگی دی ہے

بس یونہی سا غم زدہ ہوگا تو اس کو یاد آئے گا کہ خوش ہے وہ

————————————————————————-

غزل

جان ! میرا الوداعی بوسہ باقی رہ گیا ہے

ظلم اس پر یہ کہ پیہم فصل پڑھتا جا رہا ہے

اک زمانہ مبتلائے سینہ کوبی ہے مسلسل

ایک محفل سب سے بے پروا ہے اور آراستہ ہے

ایک دنیا ہے غلط بینی یہ آمادہ یگوں سے

اک قلندر ہے مسلسل دیکھتا سچ دیکھتا ہے

کوئی رقصاں ہے پس آئینہ امروز و فردا

اور عکس افشان خیزاں بس ابھرتا ڈوبتا ہے

درد کی شدت کہ لمحہ لمحہ بڑھتی جا رہی ہے

اور نفس کی آمد و شد پو چھتی ہے کیا ہوا ہے

شہد کی مکھی کہ شیرینی گری کے زعم میں ہے

اور قطرہ شان سے گر کر ہلاہل بن رہا ہے

کس نشانی سے گزر آئے بتاؤ صاحبو تم

کیوں ہجوم دہر سے سجدہ تمہیں لازم ہوا ہے

————————————————————————-

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے