عالم خورشید کی دس غزلیں


عالم خورشید کی دس غزلیں

غزل

ہر گھر میں کوئی تہ خانہ ہوتا ہے

تہ خانے میں اک افسانہ ہوتا ہے

ایک پرانی الماری کے خانوں میں

یادوں کا انمول خزانہ ہوتا ہے

رات گئے اکثر دل کے ویرانے میں

اک سائے کا آنا جانا ہوتا ہے

دل روتا ہے, چہرہ ہنستا رہتا ہے

کیسا کیسا فرض نبھانا ہوتا ہے

بڑھتی جاتی ہے بے چینی ناخن کی

جیسے جیسے زخم پرانا ہوتا ہے

تنہائی کا زہر تو وہ بھی پیتے ہیں

جن لوگوں کے ساتھ زمانہ ہوتا ہے

راہ گذر میں ایسے موڑ بھی آتے ہیں

جینے سے اچھا مر جانا ہوتا ہے

آسانی سے راہ نہیں بنتی کوئی

دیواروں سے سر ٹکرانا ہوتا ہے

زندہ رہنا ہے تو اپنی آنکھوں میں

کوئی نہ کوئی خواب سجانا ہوتا ہے

صحرا سے بستی میں آکر بھید کھلا

دل کے اندر ہی ویرانہ ہوتا ہے

سرمستی میں یاد نہیں رہتا عالم

بزم سے اٹھ کر واپس جانا ہوتا ہے

—————-

غزل

توڑ کے اس کو برسوں رونا ہوتا ہے

دل شیشے کا ایک کھلونا ہوتا ہے

محفل میں سب ہنستے گاتے رہتے ہیں

تنہائی میں رونا دھونا ہوتا ہے

کوئی جہاں سے روز پکارا کرتا ہے

ہر دل میں اک ایسا کونا ہوتا ہے

بے مطلب کی چالاکی ہم کرتے ہیں

ہو جاتا ہے ، جو بھی ہونا ہوتا ہے

دو پل کی شہرت میں بھولے جاتے ہو

جو پایا ہے اس کو کھونا ہوتا ہے

دنیا حاصل کرنے والوں سے پوچھو

اس چکر میں کیا کیا کھونا ہوتا ہے

سنتا ہوں ان کو بھی نیند نہیں آتی

جن کے گھر میں چاندی سونا ہوتا ہے

خود ہی اپنی شاخیں کاٹ رہے ہیں ہم

کیا بستی میں جادو ٹونا ہوتا ہے

———————-

غزل

کہیں پہ جسم کہیں پر خیال رہتا ہے

محبتوں میں کہاں اعتدال رہتا ہے

فلک پہ چاند نکلتا ہے اور سمندر میں

بلا کا شور ، غضب کا ابال رہتاہے

دیار دل میں بھی آباد ہے کوئی صحرا

یہاں بھی وجد میں رقصاں غزال رہتا ہے

چھپا ہے کوئی فسوں گر سراب آنکھوں میں

کہیں بھی جاؤ اسی کا جمال رہتا ہے

تمام ہوتا نہیں عشق ناتمام کبھی

کوئی بھی عمر ہو یہ لازوال رہتا ہے

وصال جسم کی صورت نکل تو آتی ہے

دلوں میں ہجر کا موسم بحال رہتاہے

خوشی کے لاکھ وسائل خرید لو عالم

دل شکستہ مگرپر ملال رہتا ہے

——————

غزل

ہمیشہ دل میں رہتا ہے کبھی گویا نہیں جاتا

جسے پایا نہیں جاتا اسے کھویا نہیں جاتا

کچھ ایسے زخم ہیں جن کو سبھی شاداب رکھتے ہیں

کچھ ایسے داغ ہیں جن کو کبھی دھویا نہیں جاتا

بہت ہنسنے کی عادت کا یہی انجام ہوتا ہے

کہ ہم رونا بھی چاہیں تو کبھی رویا نہیں جاتا

عجب سی گونج اٹھتی ہے در و دیوار سے ہر دم

یہ خوابوں کا خرابہ ہے یہاں سویا نہیں جاتا

ذرا سوچیں! یہ دنیا کس قدر بے رنگ ہو جاتی

اگر آنکھوں میں کوئی خواب ہی بویا نہیں جاتا

نہ جانے اب محبت پر مصیبت کیا پڑی عالم

کہ اہلِ دل سے دل کا بوجھ بھی ڈبویا نہیں جاتا

———————

غزل

‎تھپک تھپک کے جنھیں ہم سلاتے رہتے ہیں

‎وہ خواب ہم کو ہمیشہ جگاتے رہتے ہیں

‎امیدیں جاگتی رہتی ہیں ، سوتی رہتی ہیں

‎دریچے شمع جلاتے ، بجھاتے رہتے ہیں

‎نہ جانے کس کا ہمیں انتظار رہتا ہے

‎کہ اپنے گھر کو ہمیشہ سجاتے رہتے ہیں

‎وہ نقش_خواب مکمل کبھی نہیں ہوتا

‎تمام عمر جسے ہم بناتے رہتے ہیں

‎اسی کا عکس ہر اک رنگ میں جھلکتا ہے

‎وہ ایک درد جسے ہم چھپاتے رہتے ہیں

‎ہمیں خبر ہے کبھی لوٹ کر نہ آیینگے

‎گئے دنوں کو مگر ہم بلاتے رہتے ہیں

‎یہ کھیل صرف تمہیں کھیلتے نہیں عالم

‎سبھی خلا میں لکیریں بناتے رہتے ہیں

———————

غزل

قربتوں کے بیچ جیسے فاصلہ رہنے لگے

یوں کسی کے ساتھ رہ کر ہم جدا رہنےلگے

کس توقع پر کسی سے آشنائی کیجئے

آشنا چہرے بھی تو نا آشنا رہنے لگے

دستکیں تھکنے لگیں،کوئی بھی در کھلتا نہیں

کیا پتہ اب کس جگہ اہلِ وفا رہنے لگے

رنگ و روغن بام و در کے اڑ ہی جاتے ہیں جناب

جب کسی کے گھر میں کوئی دوسرا رہنے لگے

ہجر کی لذت ذرا اس کے مکیں سے پوچھئے

ہر گھڑی جس گھر کا دروازہ کھلا رہنے لگے

عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے

تجھ سے ہو کر ہم خفا، خود سے خفا رہنے لگے

ایک مدت سے مقفل ہے مرے دل کا مکاں

عین ممکن ہے یہاں کوئی بلا رہنے لگے

—————-

غزل

جب  تک کھلی نہیں تھی اسرار لگ رہی تھی

یہ زندگی ہمیں بھی دشوار لگ رہی تھی

مجھ پر جھکی ہوئی تھی پھولوں کی ایک ڈالی

لیکن وہ میرے سر پر تلوار لگ رہی تھی

چھوتے ہی جانے کیسے قدموں میں آ گری وہ

جو فاصلے سے مجھ کو دیوار لگ رہی تھی

شہروں میں آ کے کیسے آہستہ رو ہوا میں

صحرا میں تیز اپنی رفتار لگ رہی تھی

لہروں کے جاگنے پر کچھ بھی نہ کام آئی

کیا چیز تھی جو مجھ کو پتوار لگ رہی تھی

اب کتنی کارآمد جنگل میں لگ رہی ہے

وہ روشنی جو مجھ کو بے کار لگ رہی تھی

ٹوٹا ہوا ہے شاید وہ بھی ہمارے جیسا

آواز اس کی جیسے جھنکار لگ رہی تھی

عالم غزل میں ڈھل کر کیا خوب لگ رہی ہے

جو ٹیس میرے دل کا آزار لگ رہی تھی

————————

غزل

مرے حصار سے باہر بلا رہا ہے مجھے

کوئی حسین سا منظر بلا رہا ہے مجھے

میں جس مکان میں رہتا تھا اجنبی کی طرح

وہی مکان اب اکثر بلا رہا ہے مجھے

جو تھک کے بیٹھ گیا ہوں میں بیچ رستے میں

تو اب وہ میل کا پتھر بلا رہا ہے مجھے

سلگتے دشت سے میں نے تو دوستی کر لی

عبث ہی روز سمندر بلا رہا ہے مجھے

بجھا دیا ہے اسی نے چراغِ دل میرا

جو روز شمع جلا کر بلا رہا ہے مجھے

وہ جانتا ہے میں اس کے ستم کا خوگر ہوں

سو بار بار ستمگر بلا رہا ہے مجھے

بلا رہا ہے تو کھُل کر کبھی بلاۓ وہ

بس اک اشارے سے اکثر بلا رہا ہے مجھے

دیار غیر میں رہتا ہوں میں مگر عالم

ہر ایک لمحہ مرا گھر بلا رہا ہے مجھے

————————

غزل

ہر ایک راہگذر پر نظر جماتے ہوئے

میں چل رہا ہوں نیا راستہ بناتے ہوئے

جلے گا صبح تلک یا ہوا بجھا دے گی

یہ سوچتا ہی نہیں میں دیا جلاتے ہوۓ

چلا ہوں پانچویں جانب تو یہ شکایت کیوں

کہ لوگ آتے نہیں ہیں صدا لگاتے ہوئے

ستانے لگتا ہے ترکِ تعلقات کا خوف

بہت زیادہ کسی کے قریب جاتے ہوۓ

یقین کیسے کروں میں اب اس کی باتوں کا

جو بات کرتا نہیں ہے نظر ملاتے ہوۓ

مری زبان ہی کھلتی نہیں کسی صورت

کوئی بھی حرفِ گزارش زباں پہ لاتے ہوئے

جھکوں نہ اتنا کبھی میں کہ سر اٹھا نہ سکوں

مجھے خیال رہتا ہے سر جھکاتے ہوۓ

گراں گزرتی ہیں اپنی شرافتیں عالم

کسی نظر کے تقاضے سے منہ چھپاتے ہوئے

—————

غزل

کیا اندھیروں سے وہی ہاتھ ملائے ہوئے ہیں

جو ہتھیلی پہ چراغوں کو سجائے ہوئے ہیں

رات کے خوف سے کس درجہ ہراساں ہیں ہم

شام سے پہلے چراغوں کو جلائے ہوئے ہیں

کوئی سیلاب نہ آ جائے اسی خوف سے ہم

اپنی پلکوں سے سمندر کو دبائے ہوئے ہیں

کیسے دیوار و در و بام کی عزت ہوگی

اپنے ہی گھر میں اگر لوگ پرائے ہوئے ہیں

ایک ہونے نہیں دیتی ہے سیاست لیکن

ہم بھی دیوار پہ دیوار اٹھائے ہوۓ ہیں

یوں مری گوشہ نشینی سے شکایت ہے انہیں

جیسے وہ میرے لیے پلکیں بچھائے ہوئے ہیں

بس یہی جرم ہمارا ہے کہ ہم بھی عالم

اپنی آنکھوں میں حسیں خواب سجائے ہوئے ہیں

————-

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے