شاہ رخ عبیر کی دس غزلیں


شاہ رخ عبیر کی دس غزلیں

غزل

دل کی ویران سی گلیوں میں ستارے نکلے

تجھ میں جھانکا تو کئی رنگ ہمارے نکلے

تجھ کو دیکھوں تو یہ دنیا بھی حسیں  لگتی ہے

ترے پہلو سے بہاروں کے شمارے نکلے

صبح کی پہلی کرن ہو کہ ہوا کا جھونکا

زلف چہرے سے ہٹائی تو ستارے نکلے

سرمئی شام کی دہلیز  پہ آ بیٹھے ہیں

وہ نظارے جو تری دید کے مارے نکلے

موج در موج سمندر میں تلاطم اُٹھّا

پھر سفینے سے کئی لوگ ہمارے نکلے

پھر جوانی نے کئی خواب دکھائے مجھ کو

پھر مری روح سے الفت کے شرارے نکلے

————————–

غزل

قدم قدم پر اذیتوں  سے گلے ملا ہوں،  تمہیں پتا ہے

جسے کسی نے سنا نہیں ہے وہ واقعہ ہوں، تمہیں پتا ہے

رفاقتوں نے بدل بدل کر دکھائے ایسے عجیب چہرے

میں خیر خواہوں میں گرتے گرتے سنبھل گیا ہوں، تمہیں پتا ہے

وہ جن کو حاکم نے مصلحت میں شکاریوں کے حوالے چھوڑا

انہیں غزالوں کے دل سے نکلی ہوئی صدا ہوں، تمہیں پتا ہے

تمہارے پہلو میں پلنے والے حسیں لمحے بھی کتنے خوش ہیں

میں اُن مناظر میں ڈھلنے والا ہی زاویہ ہوں، تمہیں پتا ہے

یہ کُھلتی زلفیں، چٹکتی کلیاں، یہ گرتے جھرنے  بتا رہے ہیں

تمہاری دنیا بدل رہی ہے، میں آئینہ ہوں، تمہیں پتا ہے

تمہارے اظہارِ عشق سے دل میں تھوڑی ہلچل ہوئی ہے لیکن

تمہاری باتوں میں اس سے پہلے بھی آچکا ہوں، تمہیں پتا ہے

————————–

 

غزل

روز میں اک شجر سے ملتا ہوں

زندگی کیا بھنور سے ملتا ہوں

اس سے پہلے اداسی چھا جائے

میں خوشی کی خبر سے ملتا ہوں

شہرِ امید مجھ سے واقف ہے

اس لئے کر و فر سے ملتا ہوں

میں ہوں اک حادثہ گئی رت کا

قصۂ معتبر سے ملتا ہوں

کوستی رہ گئی زمیں مجھ کو

روز زیر و زبر سے ملتا ہوں

میں کہ بیمارِ دل نہیں لیکن

روز اک چارہ گر سے ملتا ہوں

————————–

غزل

کون کہتا ہے واہمہ ہوں میں

اپنے ہونے میں  مبتلا ہوں میں

سارے معنی ہیں میرے اندر ہی

اپنی دنیا کا لفظِ ‘لا’ ہوں میں

کوئی مجھ کو عبور کر لے گا

چند لمحوں کا فاصلہ ہوں میں

پانی پانی ہوا ہوں کچھ ایسے

ہر جگہ پانی دیکھتا ہوں میں

خاک تو خاک ہی رہے گی یہاں

کس لئے خاک چھانتا ہوں میں

میرا ملنا بہت ہی مشکل  ہے

خود میں رہ کر بھی لاپتہ ہوں میں

————————–

غزل

(مطلع  قطعہ بند ہے)

اک جہاں کو خراب کرتا ہے

اک جہاں لاجواب کرتا ہے

ہے تجسس سراب کا موسم

ہر نظارے کو خواب کرتا ہے

بھیڑ بڑھنے لگی ہے چہروں کی

آئینہ بھی حجاب کرتا ہے

ہم محبت کی بھوک مرتے ہیں

ہر دلاسہ عذاب کرتا ہے

آبلوں کا پتہ نہیں چلتا

جب ستم ہم پہ آب کرتا ہے

خود کو کیسے کروں نظر انداز

 تذکرہ باب باب کرتا ہے

اس کی نظروں کا گرم تر بوسہ

عاشقی کو نصاب کرتا ہے

تتلیاں چومتی ہیں اس کے لب

وہ بدن جب خطاب کرتا ہے

بھیڑ سے بچ کے چل عبیر یہاں

سایہ بھی اجتناب کرتا ہے

————————–

غزل

کبھی جگہوں کو خالی کر رہے ہیں

کبھی  خالی  جگہ  کو  بھر  رہے  ہیں

مخالف سمت میں چل تو رہا ہوں

مگر کچھ خواب میرے مر رہے ہیں

بدن سے آگ کی لو اُٹھ رہی ہے

ہوس کا سائے پیچھا کر رہے ہیں

گلابی شام کے  پہلو  میں  آؤ

تمہارے خواب  پہلو بھر رہے ہیں

گلوں سے فاصلہ رکھنا ذرا سا

گلوں کے ہاتھ میں نشتر رہے ہیں

یہ جو بکھرے پڑے ہیں ہر قدم پر

پرندوں کے کبھی شہپر رہے ہیں

————————–

غزل

رات ہے اضطراب کی چادر

جیسے صحرا سراب کی چادر

آگ میں ہم جھلس گئے اتنے

اوڑھ لی پھر عذاب کی چادر

ایک منظر میں سمٹے ہم دونوں

تان کر انتساب کی چادر

میرے جوگی ابھی تو دھیرے بول

میں نے تانی ہے خواب کی چادر

تم مجھے آئنے سے لگتے ہو

جیسے ہوتی ہے آب کی چادر

روح نے جسم اوڑھ رکھّا ہے

اب چڑھاؤ  گلاب کی چادر

————————–

غزل

جب چاندنی میں چاند سے نظریں ملائیں گے

پریوں کی تم کو ایک کہانی سنائیں گے

تکتی ہے مجھ کو حسن کے پردے سے خود حیا

آداب عشق آپ کیا مجھ کو سکھائیں گے

پھر چل رہی ہے میری بھی چڑیوں سے گفتگو

فصلِ بہار آئی تو نغمیں سنائیں گے

چلتا ہے ساتھ ساتھ خموشی کا اک ہجوم

تھک کر گریں گے ہم تو صدائیں لگائیں گے

چھت پر ٹہل رہی ہے عجب سر پھری ہوا

جگنو اندھیری رات کو رستہ دکھائیں گے

اب تو کہیں عبیرؔ اداسی سے مل گلے

وقت شباب ہم بھی کئی گل کھلائیں گے

————————–

غزل

یوں بھی باقی ہیں ابھی جینے کے آثار مرے

بسترِ مرگ سے اُٹھے ہیں کئی یار مرے

موجِ ادراک سے سورج کی شعائیں پھوٹیں

تو نظر آئے کچھ اندیکھے سے کردار مرے

سینہء شب پہ مچلتا ہے اداسی کا بدن

ایک تصویر دکھاتی یے یہ آزار مرے

ہر نظارے میں چھپا بیٹھا ہے من کا درپن

کس طرح خود کو سنبھالے تو ہشیار  مرے

خواب بازار میں لایا ہوں تجارت کے لئے

سوچ کر کرنا ذرا سودا خریدار  مرے

اپنی آنکھوں میں تری پیاس لئے پھرتا ہوں

اک نظر میری طرف دیکھ تو دلدار مرے

میں نے لفظوں سے بنا ہے یوں زمانے کا جال

غور کرنے پہ نظارے آئیں گے اشعار مرے

————————–

غزل

یہ مرے خواب کی تعبیر نہیں  ہو سکتی

آپ کے ہاتھ میں شمشیر نہیں ہو سکتی

مجھ پہ تنہائی میں حیرت کا غضب کھلتا ہے

اب مرے درد کی تشہیر نہیں ہو سکتی

دیکھ کر شہر کو ویران یہ سورج نے کہا

وقت کے پاؤں میں زنجیر نہیں ہو سکتی

تجھ کو چھونے سے مچلتا ہے یہ خوشبو سا بدن

مجھ سے اب عشق میں تقصیر نہیں ہو سکتی

گھر کی دیوار پہ اتراتی گلہری دیکھو

یہ کسی طور بھی تصویر نہیں ہو سکتی

اس زمانے کو نئی راہ دکھانی ہے مجھے

اب کہیں کوئی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے