شہرام سرمدی کی دس غزلیں
شہرام سرمدی کی دس غزلیں
غزل
جو ایک زخم سرِ شاخِ دل مہکتا ہے
اسی سے ہم نے یہ جانا کہ عشق زندہ ہے
تمہیں یہ علم نہیں، اہلِ دل کو ہے معلوم
وراثتِ غمِ جاناں ہمارا حصہ ہے
ہمیشہ لطفِ خدا منطقی نہیں ہوتا
اسی میں ایک کسی بے خبر کا ہونا ہے
اسی کے دم سے ہیں ہم آسماں سے وابستہ
جو ایک قریہ ء سرسبز زیرِ پا سا ہے
ہمیں نصیب ہے وہ چشمِ سادہ دنیا کو
جو مصلحت نہ ہو کہہ دیں فقط تماشا ہے
/
غزل
اس درد سے نجات نہیں چاہیے ہمیں
اے عشق کائنات نہیں چاہیے ہمیں
پہلو میں کوئی بیٹھ گیا ہے کچھ اس طرح
گویا کسی کا ساتھ نہیں چاہیے ہمیں
بے رنگئ عجیب کی سرشاریوں میں ہیں
صد رنگئ حیات نہیں چاہیے ہمیں
اتنا حسیں ہے پردہ ء سادہ پہ نقشِ عکس
کچھ نقشہءثبات نہیں چاہیے ہمیں
اب روح کے سوا نہیں باقی بدن میں کچھ
اب کوئی واردات نہیں چاہیے ہمیں
/
غزل
ذہن خالی سے ذرا سوچا تھا
وہ گماں سے بھی سوا پیارا تھا
حال میں دیکھا جو اک روز اسے
نہ وہ بدلا تھا، نہ میں بدلا تھا
جب وہ آواز پلٹ کر آئی
روح میں صفر سا اک گونجا تھا
جانے کیا پُر ہوا میرے اندر
میں بہر رنگِ دگر تنہا تھا
ساتھ تھے گام بہ گام ایک بزرگ
نام کچھ ‘حضرتِ دنیا’ سا تھا
/
غزل
آنکھ بھر دیکھ لوں نہ ہوگا پھر
یہ جہاں جوں کا توں نہ ہوگا پھر
تو میسر نہ ہو تو بہتر سے
ورنہ کارِ جنوں نہ ہوگا پھر
دُکھ بھی ہے اس کا اور خوش بھی ہوں
جو بھی کچھ ہے وہ یوں نہ ہوگا پھر
کاش میں خود سے پوچھ ہی لیتا
تو مرے ساتھ کیوں نہ ہوگا پھر
عیش کوئی بھی دائمی کب ہے
سو یہ حالِ زبوں نہ ہوگا پھر
میں نے دنیا کمانے سے پہلے
کیوں نہ سوچا سکوں نہ ہوگا پھر
/
غزل
اس نے کہا کہ دل کا کہا مان عشق ہے
اس دن کُھلا کہ واقعی آسان عشق ہے
حیران مت ہو دیکھ کے دیوانگی مری
تو محض تو نہیں ہے مری جان عشق ہے
پھرتا ہے نصفِ شب کوئی سایہ تری طرف
آنکھیں اگر ملی ہیں تو پہچان عشق ہے
پیمانہ گر نہیں ہے تو اس طرح ناپ لے
جو فاصلہ ہے ممبئ – تہران عشق ہے
تو ہجر میں بھی ساتھ رہا وصل کی طرح
مضمون کچھ الگ ہے پہ عنوان عشق ہے
/
غزل
یہ کیسی حرمتِ غم ہجرے نے فراہم کی
درونِ قلب ہے طاری فضا محرم کی
خوشی حرام ہے تا آخرِ نفس مجھ پر
نہ کرسکا میں حفاظت اگر ترے غم کی
زمینِ دل پہ رگڑتا ہے ایڑیاں ترا غم
بہ چشمِ خشک حکایت لکھی ہے زم زم کی
مرا وجود مصلٰی تھا رات بھر میں نے
نفس کی آمد و شد سے نماز قائم کی
کئی دنوں سے بہت کام تھا سو دفتر میں
ترے خیال کی لو میں نے تھوڑی مدھم کی
/
غزل
اب ملاقاتیں نہیں بس آشنائی اس سے ہے
کس طرح کا ساتھ ہے کیسی جدائی اس سے ہے
آج بھی روشن ہے وہ اک نام طاقِ یاد میں
آج بھی دیتی ہے جو اک لَو دکھائی اس سے ہے
دھیان کی اجلی کرن، آنکھوں میں قطرہ اشک کا
پھر وہ اک قوسِ قزح جو رنگ لائی اس سے ہے
تیسرا اک شخص کرتا ہے ہمیشہ تذکرہ
قصہ ء بے رنگ کی سب روشنائی اس سے ہے
وہ مجھے گنوا رہا تھا اس خدا کی نعمتیں
یہ جو غمگینی سی لہجے میں در آئی اس سے ہے
/
غزل
روز شہ رگ سے رہی ہے جوۓ خوں جاری مری
کُند پڑتی ہی نہیں اے جان عشق آری مری
صاحبِ چہرہ مرا، دل سے دکھی ہے دیکھ کر
اشک کی سرسبز منہدی اور شجر کاری مری
ذکر اس کا اہلِ مکتب سے نہیں کرنا ابھی
گندمی آواز سے مہکی ہے شب ساری مرے
لطف تیری یاد کی احوال پُرسی کا ہے دوست
تھی خبر بننے کو ورنہ ہجر آزاری مری
گم نہ ہونے پاۓ ان نینوں میں کاجل کی چمک
چار دن ہے زندگی رکھنا یونہی کاری مری
/
غزل
احباب کو معلوم ہے حاصل ہے ہمارا
ہم ہی اسے سمجھائیں گے یہ دل ہے ہمارا
شانوں پہ لیے شب کو گزر جاۓ سحر سے
اتنا تو ابھی جذبہ ء منزل ہے ہمارا
یہ ماندگی و وقفہ، یہ تازہ سفری عشق
یعنی یہ کُھلا دَم کہیں شامل ہے ہمارا
آساں نہیں ایسا دل و دنیا کا نبھانا
ہم ہی نہیں معشوق بھی قابل ہے ہمارا
پوچھا کہ بڑی دیر سے کھڑکی میں ہو بولا
نذرانہ دیا ہے وہی سائل ہے ہمارا
/
غزل
جاں بھلادے تو مجھے بس آج تنہا ہو رہوں
عمر کا جاگا ہوا میں، سانس بھر ہوں، سو رہوں
حال ناگفتہ ہے پھر بھی چاہتا ہے دل مرا
کوئی غم تجھ کو اگر ہو تو اسے میں ڈھو رہوں
دیکھ سب گم ہو گئے ہوش و حواس اس بھیڑ میں
میں نہیں کھویا مگر ایسا کہ تجھ کو کھو رہوں
جس طرح حالات تھے تو اس طرح ہمراہ تھا
غم زدہ رہنے کا گر کوئی سبب ہو، تو رہوں
اپنی تنگی، تیری وسعت جانتا ہوں آسماں
اس زمینِ دل میں تجھ کو کس طرح میں بو رہوں
/
کوئی تبصرہ نہیں